پاکستان میں توہین مذہب قانون کے مبینہ غلط استعمال پر یورپی یونین کا اظہار تشویش

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) یورپی یونین نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال خاص طور پر سزائے موت اور توہینِ مذہب کے مبینہ طور پر غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس تشویش کا اظہار پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان منگل کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں چھٹے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیدار جوزف بوریل اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ طور پر اس اجلاس کی صدارت کی۔

یاد رہے کہ یورپی یونین کی طرف سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور توہینِ مذہب کے مبینہ طور پر غلط استعمال کے بارے میں تشویش سے پہلے نومبر کے اوائل میں پاکستان کا دوررہ کرنے والے پارلیمان وفد نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو پاکستان کو حاصل تجارتی مراعات پر مبنی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا امکان نہیں ہے۔

یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سمیت دیگر متعدد ترقی پذیر ممالک کے لیے جی ایس پی پلس کے تحت ان ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ انسانی حقوق، گڈ گورننس اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری لازمی ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے دوران ان کنونشنز کی پاسداری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین نے پاکستان مین صحافیوں کے تحفظ سے متعلق حال ہی میں پارلیمان سے منظور ہونے والے بل کو سراہا ہے۔

یورپی یونین نے پاکستان مین توہینِ مذہب کے قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال سے متعلق اپنی تشویش کا اعادہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب حال ہی میں سیالکوٹ شہر میں ایک مقامی فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن شہری کو توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو جلا دیا تھا۔

‘سیالکوٹ واقعہ باعث ندامت ہے’

اس واقعے پر ہر طبقۂ فکر کی طرف سے شدید مذمت کے ساتھ ساتھ متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات سے پاکستانی معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے دورۂ بیلجیم کے دوران کہا کہ یہ واقعہ پاکستان کی ندامت کا باعث بنا ہے۔

پاکستان میں توہینِ مذہب کے مبینہ طور پر ٖغلط استعمال پر یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتی آ رہی ہے۔ دوسری جانب اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات پاکستان کی معیشت اور برآمدات کے لیے بھی ںقصان دہ ہیں۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ پاکستان میں معاشرتی انحطاط کا مظہر ہے۔

ان کے بقول اگر ایسے واقعات کا تدارک نہ کیا گیا اس کے نتیجے پاکستان کی ساکھ اور برآمدات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا معاملہ مشکل ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول اگر جی ایس پی پلس کی ترجیحی تجارتی سہولت ختم ہو جائے گی تو یورپی یونین کی پاکستان برآمدات میں ںمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ شاہد ستار کا کہنا ہے کہ پاکستان یورپی یونین کو سالانہ چھ سے سات ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے اور اگر جی ایس پی کی سہولت ختم ہو جاتی ہے ان کے بقول پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں تین سے چار ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔

شاہد ستار نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے کے بعد یورپی یونین کے کاروباری افراد نے سیالکوٹ کے دورے منسوخ کر دیے ہیں اور اگر مستقبل قریب میں یہ دورے دوبارہ شروع نہ ہوئے تو ان کے بقول شاید پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریداری کے لیے نئے آرڈرز میں کمی ہو سکتی ہے۔

شاید ستار نے سیالکوٹ جیسے واقعات روکنے کے لیے وزیرِ اعظم کے عزم کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

شاہد ستار نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران ٹیکسٹائل شعبوں میں 100 نئے یونٹ قائم کیے ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں چھ ارب ڈالزر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے یورپی یونین کا ترجیحی تجارت کا سہولت کا برقرار رہنا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں