بھارتی کشمیر: ’جعلی‘ مقابلوں میں ہلاکتیں، لواحقین کو لاشوں کا انتظار

سرینگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) یہ ایک سرد رات تھی اور ہوا میں کشیدگی تھی۔ الطاف بٹ کے لواحقین اور رشتے دار ان کی میت کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

الطاف بٹ سری نگر میں سکیورٹی فورسز اور مشتبہ شدت پسندوں کے درمیان ایک تصادم میں ہلاک ہو گئے تھے۔

حالیہ دنوں میں کشمیر میں ایسی کئی اموات ہوئی ہیں جن کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے اور لواحقین نے ان کی ہلاکت کے بارے میں پولیس کے دعو‎‎ؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ الطاف کی موت بھی ان میں سے ایک ہے۔

سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے انتہا پسندی کے خلاف کارروائیوں میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن ایسے کئی معاملات ہیں جن میں مقتول کے لواحقین نے سکیورٹی فورسز پر مبینہ طور پر شہریوں کو انکاؤنٹر کے نام پر قتل کرنے اور انھیں انتہا پسند قرار دینے کا الزام لگایا ہے۔

پولیس کے مطابق 15 نومبر کو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں مبینہ شدت پسندوں اور مسلح سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ دیر تک جاری رہنے والی ’فائرنگ‘ میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں عمارت کے مالک الطاف بٹ، بزنس مین مدثر گل، مدثر کے ساتھ کام کرنے والے عامر ماگرے اور ایک ’غیر ملکی انتہا پسند‘ بلال بھائی شامل تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عامر اور مدثر شدت پسندوں کے ساتھی تھے جبکہ الطاف کی موت ’فائرنگ کے تبادلے‘ میں ہوئی۔

ان تینوں کے خاندان نے پولیس کے دعوؤں کو مسترد کیا اور کہا کہ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے لوگ بے قصور تھے اور پولیس نے انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

پولیس نے بعد میں تینوں کی لاشوں کو موقع سے تقریباً 85 کلومیٹر دور کشمیر کے شمال میں لے جا کر مبینہ طور پر شدت پسندوں کے لیے بنائے گئے قبرستان میں دفن کر دیا۔

لیکن مقامی سیاستدانوں کے تعاون سے کئی روز تک لواحقین کی مخالفت کے بعد مدثر گل اور الطاف بٹ کی لاشوں کو قبر سے نکال کر ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا تاہم عامر ماگرے کے لواحقین اب بھی ان کی لاش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لیکن یہ اس طرح کا پہلا کیس نہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں کشمیر کے بہت سے خاندانوں نے انڈین سکیورٹی فورسز پر ایسے فرضی مقابلے کروانے کا الزام لگایا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سنہ 2019 سے سکیورٹی فورسز پر پابندیوں کے نفاذ کے دوران، لوگوں کو باقاعدہ ہراساں کرنے، ناکوں کی چیکِنگ کے دوران ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے، انھیں زبردستی روکنے اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے گئے ہیں۔‘

اموات کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں کی تحقیقات
پولیس کے مطابق انھیں اطلاع ملی تھی کہ 15 نومبر کو حیدر پورہ کی ایک عمارت میں شدت پسند موجود ہیں، جس کے بعد علاقے کا محاصرہ کر کے سرچ آپریشن شروع کیا گیا۔

جموں و کشمیر پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی سے کو بتایا کہ ’عمارت کی تلاشی لی گئی اور عمارت میں کوئی شدت پسند نہیں ملا۔‘

پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ اس موضوع پر سرکاری طور پر بات نہیں کر سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بعد میں الطاف، عامر اور مدثر کو ان کمروں کو کھولنے کے لیے بھیجا گیا جو بند تھے اور پندرہ منٹ کے بعد ہم نے دو گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ آپریشن کے دوران ایک شخص کو گولی لگی اور وہ وہیں ہلاک ہو گیا۔ اس شخص کا نام بلال بھائی تھا، جسے مبینہ طور پر غیر ملکی انتہا پسند کہا گیا۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’جہاں سے سیڑھیاں شروع ہوتی ہیں وہاں دو لاشیں پڑی تھیں، ایک الطاف کی اور دوسری عامر کی۔ عامر کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور دونوں کی موت ہو چکی تھی۔‘

’اب تک مدثرکا کچھ پتہ نہیں تھا۔ دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ہم اوپر گئے تو دیکھا کہ ان کی لاش اوپر کی منزل پر پڑی تھی۔‘

لیکن ان کے رشتہ دار اور عینی شاہد کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

40 سال کے الطاف بٹ ایک تاجر تھے اور اس عمارت کے مالک تھے جہاں مبینہ طور پر فائرنگ ہوئی تھی۔

عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شام پانچ بجے کے قریب سادہ کپڑوں میں کچھ لوگ آئے اور انھوں نے پورے علاقے کو خالی کرا لیا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’سبھی کو اپنی اپنی دکانوں سے باہر آنے کو کہا گیا۔‘

’انھوں نے سب کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیا۔ ہمارے فون لے گئے اور تمام لوگوں کو قریبی شو روم میں لے گئے، مدثر اور الطاف بھی وہاں تھے۔‘

عینی شاہدین نے بتایا کہ الطاف کو تین بار تلاشی کے لیے بلایا گیا لیکن جب الطاف تیسری بار گئے تو وہ واپس نہیں آئے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ تیسری بار پھر کچھ مسلح افراد آئے اور پوچھا کہ اس عمارت کا مالک کون ہے اور انھیں باہر آنے کو کہا گیا۔

’الطاف نے مدثر گل سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ اس کے بعد دونوں واپس نہیں آئے۔ ہمیں صرف گولیوں کی آوازیں سنائی دیں۔‘

اسی رات تینوں (الطاف بٹ، مدثر گل اور عامر ماگرے) کی لاشیں تدفین کے لیے شمالی کشمیر لے جائی گئیں۔ آخری رسومات ادا کرنے کے لیے خاندان کا کوئی فرد وہاں موجود نہیں تھا۔

الطاف کے بڑے بھائی عبدالمجید بٹ نے کہا کہ سکیورٹی فورسز ہماری سکیورٹی کے لیے موجود ہیں، کیا ہمیں یہ تحفظ ملے گا، ہم ٹیکس دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں ہمیں گولیاں ملتی ہیں، کیا یہ انصاف ہے؟

الطاف کے تین بچے ہیں اور ان کا سب سے چھوٹا بیٹا صرف تین سال کا ہے۔ عبدالمجید بٹ کہتے ہیں کہ ’وہ مجھ سے بار بار کہتا ہے کہ میرے پاپا کو لے آئیں لیکن میں اسے کہاں سے لیکر آوں؟‘

اس معاملے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہلاک شدگان کے اہلخانہ کو تحقیقات پر بھروسہ نہیں۔

عبدالمجید کا کہنا ہے کہ ’پچھلے تیس برسوں میں کسی کو انصاف نہیں ملا، ہم ان سے انصاف کی امید کیسے کر سکتے ہیں۔‘

ایسے کیسزکی تحقیقات
گزشتہ برسوں میں اس طرح کی اموات کے کچھ کیسز کی تحقیقات شروع کی گئی ہیں لیکن ایسی تحقیقات کے پورا ہونے یا کسی کو سزا ملنے کا واقعہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔

2017 میں انسانی حقوق کے کارکن محمد احسان انٹو نے ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں ایک درخواست دائر کی جس میں کشمیر میں مسلح شورش کے آغاز سے لے کر پٹیشن دائر کرنے تک ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں معلومات طلب کی گئی ہیں۔

احسان کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے اپنے جواب میں لکھا کہ 1989 سے 2018 تک ایسے 506 کیسز کی تحقیقات کا حکم دیا گیا اور ان میں سے صرف ایک کیس کی تحقیقات مکمل کی گئی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ محض ایک فریب ہے۔ اگر عوام کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے تو وہ معاملے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہیں لیکن تفتیش کبھی مکمل نہیں ہوتی۔‘

18 جولائی 2020 کوانڈین فوج نے جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں ایک تصادم میں تین ’نامعلوم انتہا پسندوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

اسی دن جموں کے راجوری علاقے کے تین مزدور شوپیاں میں لاپتہ ہو گئے۔ وہ مزدوری کے لیے شوپیاں گیے تھے۔

ان ’شدت پسندوں‘ کی شناخت نہیں ہو سکی اور ان کی لاشیں شوپیاں سے تقریباً 140 کلومیٹر دور شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں دفن کی گئیں۔ یہاں تک کہ پہچان کے لیے ان کی تصاویر بھی جاری نہیں کی گئیں۔

لیکن ہلاک ہونے والے ’شدت پسندوں‘ کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس کے بعد راجوری میں ان کے رشتہ داروں نے گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مقتول ان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اس پر بحث شروع کر دی اور اسے ’جعلی‘ مقابلہ قرار دیا، جس کے بعد انڈین فوج اور پولیس کے لیے اس معاملے کی تحقیقات شروع کرنا ضروری ہو گیا۔

ستمبر میں فوج کی تحقیقات مکمل ہوئیں جس میں ’بنیادی نظریہ‘ یہ پایا گیا کہ فوج نے آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت حاصل کردہ طاقت کا ’غلط استعمال‘ کیا۔ تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا کہ جس افسر پر الزام تھا ان کے خلاف آرمی ایکٹ جیسی تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

(افسپا) ایکٹ سکیورٹی فورسز کو لوگوں کی تلاشی اور ضبطی سے متعلق خصوصی اختیارات دیتا ہے۔ غلطی سے یا ناگزیر وجوہات کی بنا پر آپریشن کے دوران شہری ہلاکتوں کی صورت میں یہ فوجیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

لیکن کشمیر اور شمال مشرقی ریاست منی پور میں اس قانون کو ’فرضی مقابلوں‘ کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتاہے۔

پولیس کی تفتیش میں بتایا گیا کہ ہلاک ہونے والے تین افراد عام شہری تھے اور ان کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ وہی تین افراد تھے جو جولائی میں شوپیاں سے لاپتہ ہوئے تھے۔

تحقیقات میں ایک انڈین فوجی افسر اور دو شہریوں کو بھی نامزد کیا گیا اور ان پر قتل، اغوا اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزامات عائد کیے گئے۔

وکیل حبیل اقبال کا کہنا ہے کہ ’یہ مقدمہ اس وقت شوپیاں کی عدالت میں زیر التوا ہے لیکن صرف دو عام شہریوں کو سزا دی گئی، جو اس کیس کے مرکزی ملزم نہیں۔ اس کیس کے مرکزی ملزم فوجی افسران ہیں۔‘

جس افسر پر فرضی انکاؤنٹر کا الزام ہے وہ مقدمہ فوجی عدالت میں چل رہا ہے، جہاں کی کارروائی کی تفصیلات عام شہریوں تک نہیں پہنچتی۔

اقبال کہتے ہیں کہ ’افسپا جیسے قانون کی وجہ سے، ہم نہیں جانتے کہ کیس کے مرکزی ملزم افسر کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے کیونکہ آرمی ٹربیونل میں کیا ہوتا ہے اس بارے میں ہم کچھ معلوم نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ عام شہریوں تک نہیں پہنچتا۔‘

ہیومن رائٹس واچ نے کشمیر میں ’عام لوگوں‘ کی ہلاکتوں کے بارے میں اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کے لیے کوئی جوابدہی نہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افسپا جیسے قوانین سکیورٹی فورسز کو ایک طرح سے ’موثر تحفظ‘ فراہم کرتے ہیں۔ اس وجہ سے انڈین حکومت نے ’سکیورٹی فورسز کے خلاف عام عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی۔‘

ابرار احمد کی اہلیہ شیرین اختر کے لیے امید کی کرن دن بہ دن حتم ہوتی جا رہی ہے۔

21 برس کی شرین کا کہنا ہے کہ ’مجھے حکام سے کچھ نہیں چاہیے، مجھے صرف اللہ سے انصاف چاہیے، اب دو سال پورے ہونے کو ہیں، کہاں گیا وہ انصاف جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔‘

بی بی سی نے ملزم افسر کے خلاف جاری کورٹ مارشل کے بارے میں معلومات کے لیے انڈین فوج سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

انصاف کی امید

30 دسمبر 2020 کو کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے سری نگر شہر کے مضافات میں لائل پورہ میں ’ایک انکاؤنٹر‘ میں تین ’شدت پسندوں‘ کو ہلاک کر دیا ہے۔

پولیس کے ایک بیان کے مطابق تصادم 29 دسمبر کی شام کو شروع ہوا، جب انڈین فوج کی انسداد دہشت گردی یونٹ راشٹریہ رائفلز نے ’تصدیق شدہ معلومات‘ کی بنیاد پر ایک علاقے میں تلاشی مہم شروع کی تھی۔

کشمیر پولیس اور نیم فوجی دستوں کے لوگ بھی ’جلد ہی‘ موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس کے مطابق فائرنگ 30 دسمبر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی اور ’چھپے ہوئے تین عسکریت پسند‘ مارے گئے۔

ہلاک ہونے والے تین مشتبہ ’انتہا پسندوں‘ کی شناخت اعجاز مقبول غنی، اطہر مشتاق وانی اور زبیر احمد لون کے نام سے ہوئی۔

لیکن ’انکاؤنٹر‘ کے فوراً بعد مارے گئے تینوں افراد کے اہلخانہ نے فوج اور پولیس کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ تینوں شدت پسند نہیں بلکہ انھیں مبینہ طور پر ’جعلی مقابلے‘ میں ہلاک کیا گیا۔

مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے 17 سال کے اطہر مشتاق وانی کے والد مشتاق احمد وانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بیٹا گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا اور موت سے قبل سالانہ امتحان کے چار پرچے دے چکا تھا۔

11ویں جماعت کے امتحان کے نتائج 20 اپریل 2021 کو سامنے آئے۔ مشتاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیں اس نے تمام امتحانات پاس کر لیے ہیں۔ صرف اردو میں پاس نہیں ہو سکا کیونکہ اسے اردو کے امتحان سے ایک دن پہلے قتل کر دیا گیا۔‘

مشتاق کا کہنا ہے کہ 29 دسمبر کو ان کا بیٹا گھر پر تھا پھر وہ سری نگر چلا گیا۔ ’اس نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ صبح واپس آجائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کا بیٹا انتہا پسند تھا تو فوج کو ثابت کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے خاندان کا خیال ہے کہ اس کا انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

مشتاق سوال کرتے ہیں کہ ’پولیس میں اس کے خلاف کوئی رپورٹ نہیں تو وہ انتہا پسند کیسے ہو سکتا ہے۔‘

تب سے مشتاق نے اپنے گھر کے قریب قبر کھود لی ہے اور اپنے بیٹے کی لاش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیٹے کی لاش کو پولیس نے ان کے گھر سے 125 کلومیٹر دور دفن کیا ہے۔

مشتاق کہتے ہیں کہ ’جب میں نے احتجاج کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا، اپنے بیٹے کی لاش کا مطالبہ کیا تو مجھ پر یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ یہ مجھے خاموش کرنے کے لیے کیا گیا۔‘

غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات کے تحت ملزم کی ضمانت تقریباً ناممکن ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اسے ظالمانہ قانون قرار دیتے ہیں۔

مشتاق کو انصاف کی امید ہے اور وہ مسلسل اپنے بیٹے کی لاش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سنہ 2020 کے بعد سے انڈین حکام نے انتہا پسندوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنا بند کر دیں اور خفیہ طور پر ان کی لاشوں کو دور دراز مقام پر دفنانا شروع کر دیا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سکیورٹی فورسز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا مزید حوصلہ ملتا ہے۔

وکیل حبیل اقبال کا کہنا ہے کہ جب آپ میت کو لواحقین کے حوالے نہیں کرتے تو یہ ایک طرح کی اجتماعی سزا کے مترادف ہے اور ساتھ ہی اس میں شفافیت کا بھی فقدان ہے۔ اس سے اس شخص کی ذمہ داری طے نہیں ہوتی جس نے ماورائے عدالت قتل کیا۔‘

لیکن سکیورٹی ایجنسیاں اس نظریے کو چیلنج کرتی ہیں۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انتہا پسندی کو ’گلیمرائز‘ کرنے کے لیے انتہا پسندوں کے جنازے نکالے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی لیے حکام نے شدت پسندوں کی لاشیں لواحقین کو نہ دینے کا قدم اٹھایا۔

جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کلدیپ کھوڑا کا کہنا ہے کہ انکاؤنٹر کیسوں میں متاثرہ خاندانوں کے دعوؤں کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں اور یہ فوج کے کام کو غیر انسانی قرار دینے کی کوشش ہے۔

کلدیپ کھوڑا کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے دعوے سکیورٹی فورسز کے جوش کو کم کرنے کی نیت سے کیے جاتے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے جموں و کشمیر اور پنجاب میں سکیورٹی فورسز کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک وقت کے بعد سکیورٹی فورسز کو یہ محسوس ہو گیا کہ اگر وہ صحیح نیت سے کام کرتے ہیں تو انھیں مختلف عناصر کی طرف سے کیے جانے والے دعوؤں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں