طالبان پر اب تک 72 ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام ہے؛ اقوامِ متحدہ کو تشویش

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی) اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان کے اگست میں ملک پر کنٹرول کے بعد سے اب تک مصدقہ طور پر 100 سے زائد ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ڈپٹی چیف ندا النصحیف نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کے اعلان کے باوجود ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات کے باعث تشویش میں ہیں۔

انہوں نے منگل کو انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب میں کہا کہ “اگست سے نومبر کے درمیان ہمیں ایک سو سے زائد قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں اور سابقہ حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں۔ جن میں سے ​72 ہلاکتوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ مبینہ طور پر طالبان کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔

ندا النصحیف کے بقول کئی واقعات میں مقتولین کی لاشوں کو چوک چوراہوں میں لٹکایا گیا جس سے آبادی کے بڑے حصے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

دوسری جانب طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہر بلخی نے سابق انتظامیہ کے اہلکاروں پر مظالم کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت عام معافی کے اعلان پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام معافی کے اعلان کے برخلاف عمل پر کارروائی کی جائے گی اور اس قسم کے واقعات کی مکمل تفتیش کی جائے گی تاہم غیر مصدقہ افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔

ندا النصحیف نے افغانستان کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی چیف مشیل بیچلٹ کو منگل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے مخالف گروہ داعش خراسان کے بہت سے جہادی بھی گزشتہ دنوں میں مارے گئے ہیں۔

مشیل بیچلٹ کے مطابق ننگرہار صوبے میں پچاس سے زیادہ افراد کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق داعش خراسان سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ان علاقوں میں عوامی طور پر پھانسی، سر قلم کرنے اور عوامی طور پر لاشوں کے دکھانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بدھ کو سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی الزام لگایا گیا ہے کہ طالبان نے نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان، سابقہ افغان فوجیوں اور مبینہ طور پر سابق حکومت کے ہمدردوں کو جولائی اور اگست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا ہے جب کہ اس دوران بعض ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

ادارے کے مطابق ان ہلاکتوں کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد افغان شہری، جو ملک کی تقریباً آدھی آبادی بنتی ہے آئندہ سردی کے مہینوں میں خوراک کی شدید قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں