میانمار فوج کے ہاتھوں 40 شہریوں کے قتل عام کا انکشاف

ینگون (ڈیلی اردو/بی بی سی) ‘ہم نے ان کی بہت منت سماجت کی کہا ایسا نہ کریں۔ ان کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے عورتوں کو کہا کہ اگر تمہارے شوہر ان میں ہیں تو آخری رسم ادا کر لو۔’

بی بی سی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ میانمار کی فوج نے جولائی کے مہینے میں عام شہریوں کا قتل عام کیا جس کے نتیجے میں 40 اموات ہوئیں۔ ان واقعات کے عینی شاہدین اور بچ جانے والوں کے مطابق میانمار کے فوجی اہلکاروں نے، جن میں سے چند کی عمریں 17 سال تک بھی بتائی گئی ہیں، دیہاتیوں کو گرفتار کرنے کے بعد مردوں کو الگ کیا اور انھیں قتل کر دیا۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی ان واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تمام افراد کو قتل کرنے سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں انھیں قبروں میں دفنا دیا گیا۔

اس سال جولائی میں ہونے والا یہ قتل عام ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ سگائینگ ضلعے کے کانی ٹاؤن شپ میں ایسے چار واقعات ہوئے جو میانمار کی حکومت مخالف تنطیم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے رواں سال فروری کے مہینے میں آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے اسے ملک کے شہریوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔

‘ہمیں کہا گیا کہ آخری رسم ادا کرلو’

بی بی سی نے کانی شہر میں فوج کے قتل عام کے 11 عینی شاہدین سے بات چیت کی اور ان کی گواہی کا ان واقعات کی موبائل فون فوٹیج اور تصاویر سے بھی موازنہ کیا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کرنے والی برطانوی این جی او میانمار وٹنس نے اکھٹی کی ہیں۔

بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق ان واقعات میں سب سے بڑا واقعہ ین گاؤں میں پیش آیا جہاں کم از کم 14 افراد کو تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا اور ان کی لاشوں کو جنگل میں پھینک دیا گیا۔

ین گاوں سے تعلق رکھنے والے اس واقعے کے عینی شاہدین نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ فوجی اہلکاروں نے پہلے گرفتار مردوں کو رسیوں سے باندھا اور پھر ان پر تشدد کیا۔

ایک خاتون جن کے بھائی، بھتیجے اور سالے کو اسی واقعے کے دوران قتل کیا گیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم یہ منظر نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے بس ہم سر جھکائے روتے رہے۔’

اس خاتون کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے ان کی بہت منت سماجت کی کہا ایسا نہ کریں۔ ان کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے عورتوں کو کہا کہ اگر تمہارے شوہر ان میں ہیں تو آخری رسم ادا کر لو۔’

‘قتل سے پہلے گھنٹوں تک تشدد بھی کیا گیا’

ین گاؤں میں قتل عام کے دوران بجان بچا کر بھاگ جانے والے ایک شخص نے بتایا کہ فوجی اہلکاروں نے قتل سے پہلے گھنٹوں تک بہیمانہ تشدد کیا۔

‘ان کو رسیوں سے باندھ کر پورا دن پتھروں اور رائفل بٹوں سے تشدد کیا گیا۔’

اس شخص کے مطابق ‘فوجی اہلکاروں میں سے کچھ بہت کم عمر تھے۔ شاید 17-18 سال کے۔ لیکن کچھ بہت ادھیڑ عمر بھی تھے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔’

ین گاوں کے قریب ہی زی بن ڈون گاوں میں جولائی کے اواخر میں 12 تشدد زدہ لاشیں ایک قبر سے بر آمد کی گئی تھیں۔ ان میں ایک کم عمر بچہ اور ایک معذور شخص بھی تھا۔ کچھ کی شناخت ممکن نہیں تھی۔

قریب ہی بیر کے درخت سے بندھی ہوئی ایک 60 سالہ شخص کی لاش بھی پائی گئی۔ اس لاش کی ویڈیو فوٹیج میں تشدد کی علامات واضح ہیں۔

اس شخص کے خاندان کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا اور پوتا فوج کی آمد کے وقت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وہ اس خیال سے گاوں میں ہی رہا کہ اس کی عمر کی وجہ سے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔

میانمار کی فوج کی جانب سے اجتماعی سزائیں

میانمار کی فوج کی جانب سے یہ قتل عام بظاہر ان علاقوں میں موجود عام شہریوں کے ان عسکری گروہوں کی کارروائیوں کا بدلہ اور اجمتماعی سزا لگتے ہیں جو پیپلز ڈیفینس فورس کے نام سے فوج کی مخالفت کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو بحال کیا جائے۔

ان واقعات سے پہلے اس علاقے میں فوج اور پیپلز ڈیفینس فورس کے درمیان جھڑپوں میں شدت دیکھی گئی تھی۔

واقعات کے ویڈیو ثبوت اور عینی شاہدین سے واضح ہوتا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے مردوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ میانمار میں ایسی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں جن میں فوج نے پیپلز ڈیفینس فورس سے جھڑپوں کے بعد دیہاتوں میں مردوں کو اجتماعی سزائیں دیں۔

لیکن قتل ہونے والوں کے خاندان کہتے ہیں کہ ان افراد نے کبھی بھی فوج پر حملوں میں حصہ نہیں لیا۔ ین گاوں میں قتل ہونے والے ایک شخص کی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے فوجی اہلکاروں کی بہت منت کی اور کہا کہ اس کا بھائی تو غلیل بھی نہیں چلا سکتا۔

اس خاتون نے کہا کہ فوجی اہلکاروں نے اسے جواب دیا کہ ‘خاموش رہو۔ ہم تھک چکے ہیں۔ ہم تمہیں بھی مار دیں گے۔’

میانمار کی فوج نے الزامات کی تردید نہیں کی

بی بی سی نے ان الزامات کو میانمار کے ڈپٹی وزیر اطلاعات اور فوجی ترجمان جنرل زاو من ٹن کے سامنے رکھا تو انہوں نے ان کی تردید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایسا ممکن ہے۔ جب ہمارے ساتھ دشمنوں والا برتاو کیا جائے گا تو ہمیں بھی اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔’

واضح رہے کہ میانمار میں فوجی کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے ملک میں بین الاقوامی صحافیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور تقریبا تمام غیر سرکاری میڈیا گروپس کو بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے زمینی رپورٹنگ نا ممکن ہوچکی ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار میں فوجی جنتا کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں