ننگرہار: طالبان کے انٹیلیجنس چیف نے ڈیورنڈ لائن پر باڑ کاٹ دی، پاکستانی اہلکاروں کو دھمکیاں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پاکستانی فوج کی جانب سے نصب باڑ کو مبینہ طور افغان طالبان کی جانب سے اکھاڑے جانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔

منگل کو سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں پاک افغان سرحد کے ایک مقام سے افغان طالبان کے خصوصی دستے یہ خار داریں اٹھاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ان ویڈیوز میں دعوی کیا گیا ہے کہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود میں لگائی گئی ہیں۔ وہاں موجود افغان حکومتی اہلکاروں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ ڈیورنڈ لائن کے نام سے منسوب پاک افغان سرحد تقریباً چوبیس سو کلومیٹر پر مشتمل ایک طویل سرحد ہے اور پاکستان نے افغانستان کے علاوہ ایران کی سرحد کے ساتھ بھی باڑ لگانے کا منصوبہ چند برس پہلے شروع کیا تھا۔

پاکستان اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ باڑ سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے لگائی گئی ہے۔

تاہم دوسری جانب افغان طالبان سے قبل وہاں موجود حکام اس منصوبے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف یہ رہا کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تنازع حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اس سرحد پر باڑ لگانا صحیح نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے کہ جس میں باڑ کو ہٹایا گیا ہے۔

ٹوئٹر پر افغان صحافی بلال سروری نے یہ ویڈیو اور تصاویر شیئر کی ہیں جن میں کچھ افغان سکیورٹی اہلکار خار دار تاریں اٹھائے نظر آ رہے ہیں اور بڑی تعداد میں خار دار تاریں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔

یہ ویڈیو بنانے والے آپس میں کہہ رہے ہیں کہ ’صحیح تاریں لے آؤ‘ تو دوسرا شخص کہتا ہے کہ ’ساری تاریں لے آئے ہیں۔‘

بلال سروری کے ٹویٹ کے مطابق ان خصوصی فورسز کی قیادت طالبان کے انٹیلیجنس چیف ڈاکٹر بشیر کر رہے ہیں۔

اس ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان فوجیوں کے مطابق یہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود کے اندر لگائی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں چادر اوڑھے ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے جو پہاڑ پر موجود دور سے بظاہر پاکستانی اہلکاروں کو خبردار کرتے ہوئے افغانستان کی حدود کے اندر داخل ہونے سے منع کیا۔

مذکورہ شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ڈاکٹر بشیر ہیں اور یہ اس خصوصی فورسز کے دستے کی قیادت کر رہے ہیں۔

اس ٹویٹ کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں ضلع گوشتہ کے مقام پر پیش آیا ہے اور یہ علاقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے ملتا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان میں پاک افغان سرحد پر فینسنگ کے خلاف احتجاج ہوا ہے۔ سابق دور حکومت میں بھی افغان حکام اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔

سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کے دوران افغانستان کی جانب سے متعدد حملے ہو چکے ہیں جس میں پاکستان کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔

رواں سال مئی میں افغانستان کی جانب پاکستان کے ضلع ژوب کے قریب ملنے والی سرحد پر حملہ کیا تھا۔ اس میں حملہ آوروں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھے لیکن بظاہر یہی کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں نے پاکستان کی ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ حملہ اُس وقت کیا گیا تھا جب ایف سی کے جوان پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف تھے۔

حکام نے بتایا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر سرحد پار فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے جس میں پاکستانی شہریوں اور بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

افغان طالبان کے کچھ اہلکاروں نے اس سال اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان سے افغان شہریوں کی امداد کے لیے جانے والے ٹرکوں سے بھی پاکستان حکومت کی جانب سے لگائے گئے بینرز ہٹا دیے تھے۔

سرحد پر افغان اہلکاروں کی جانب سے حالیہ کارروائی کے بارے میں افغان طالبان سے رابطہ کیا تو ان کے محکمہ اطلاعات کے ایک عہدیدار بلال کریمی نے بتایا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں رابطے کر رہے ہیں اور اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ اس بارے میں موقف بیان کر سکیں گے۔ تاحال ان کے پاس اس بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔

پاکستان میں سکیورٹی حکام کو بھی اس بارے میں جاننے کے لیے پیغام بھیجے لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو بھی میسج کیے گئِے ہیں لیکن اس بارے میں ان کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستان نے افغانستان کی جانب سے شدت پسندوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے غیر قانونی طریقوں سے داخلے پر پابندی کی خاطر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ چار سال پہلے کیا تھا۔

پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملے اور دیگر تشدد کے واقعات کے بعد حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ بیشتر حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں کارروائیاں کر کے واپس فرار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بھتے کے حوالے سے بھی اکثر پولیس حکام یہی کہتے رہے ہیں کہ بیشتر بھتہ خور افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے آ کر یہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔

اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرائع کے مطابق اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد اپنے ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں