افغان سرحد پر پاکستان کی لگائی خاردار باڑ طالبان نے اکھاڑنا شروع کر دی

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان کی حکومت میں شامل بعض اعلیٰ حکام ڈیورنڈ لائن کو نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کی پالیسی پر بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ دن سے ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے سرحد پر تعینات اہلکار مختلف علاقوں میں خاردار باڑ اکھاڑ کر گاڑیوں میں لے جا رہے ہیں۔

ان کے ویڈیو دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے اہلکار مختلف مقامات پر نہ صرف پاکستان کی تعمیر کردہ چوکیوں پر معترض ہیں بلکہ ان کو پاکستان کے حدود میں منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

حارث اکاخیل نامی ایک افغان صحافی نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کی ہے جس میں طالبان اہلکار سرحد پر کنڑ کے علاقے گوشہ میں کئی میٹر خاردار باڑ اکھاڑ کر گاڑی میں ڈال کر لے گئے ہیں۔ جب کہ انہوں نے پاکستان کی حدود میں واقع ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ میں موجود پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو چوکی ہٹا کر اپنے ملک منتقل کرنے کی بھی دھمکی دی۔

پاکستان کی خاتون صحافی گل بخاری نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو شئیر کی ہے جس میں طالبان خار دار باڑ ہٹانے کے بعد پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو افغان علاقہ خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

افغانستان کے سرحدی علاقے کنڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی سید رحمٰن صافی نے وائس آف امریکہ سے ٹیلیفون پر گفتگو میں بتایا کہ طالبان کی جانب سے باڑ ہٹانے کا اقدام صرف گوشہ نامی علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں چترال سے لے کر بلوچستان میں اسپن بولدک تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں نہ صرف افغان طالبان بلکہ پاکستانی طالبان اور قبائلی شہری وقتاََ فوقتاََ یہ خاردار باڑ اکھاڑ کر لے جا رہے ہیں۔

افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبے ننگرہار سے تعلق رکھنے والے صحافی حمیم روحانی نے کنڑ اور گوشہ میں خاردار باڑ اکھاڑنے کی تصدیق کی۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر سے مؤقف کے لیے رابطہ کیا البتہ تاحال ان کا مؤقف سامنے نہیں آ سکا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کی وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کا کہنا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی فوج کو مشرقی صوبے ننگرہار میں غیر قانونی باڑ لگانے سے روک دیا ہے۔

انہوں نے واقعے کو زیادہ اہم قرار نہیں دیا۔ ان کے بقول سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان بلال کریمی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق طالبان کے بعض عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ طالبان اور پاکستان کی فوج کے اہلکار ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے مرکزی رہنماؤں یا حکومتِ پاکستان نے طالبان کے اس اقدام پر ابھی تک کسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔

صحافی سید رحمٰن صافی کا کہنا تھا کہ ننگرہار کے گورنر حاجی محمد مزمل اور کنڑ کے گورنر مولوی خالد قاسم سمیت طالبان کے کئی رہنما نہ صرف پاکستان افغانستان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کے خلاف ہیں بلکہ وہ ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان مستقل سرحد بھی تسلیم نہیں کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان طالبان کی اکثریت کے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے اچھے تعلقات ہیں۔ اچھے تعلقات کے باوجود زیادہ تر افغان باشندوں کی طرح طالبان رہنما بھی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع لکیر تصور کرتے ہیں۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر 2014 میں باڑ لگانے کی منصوبہ بندی شروع کی البتہ سرحد پر خاردار تار لگانے کا باقاعدہ آغاز مارچ 2017 میں شروع ہوا تھا۔

پاکستانی حکام نے اسے اپریل 2021 تک مکمل کرنے کے توقع ظاہر کی تھی۔ 2019 کے آخر میں کرونا وائرس سامنے آنے کے بعد اس کام میں تعطل آیا اور ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔ حکام کا مؤقف ہے کہ سرحد پر خاردار تار لگانے کا کام 90 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔

حکام یہ واضح نہیں کر سکے ہیں وہ کونسے علاقے ہیں جہاں 10 فی صد خاردار باڑ نہیں لگ سکی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی لمبائی لگ بھگ 2500 کلو میٹر سے بھی زائد ہے۔ اس سرحد کے تقریباََ 1800 کلو میٹر حصے پر خاردار لگائی جا رہی ہے۔

دونوں ممالک میں 700 کلومیٹر کے سرحدی علاقے میں برف باری، خراب موسم، سنگلاخ چٹانوں اور جنگلات کے باعث رسائی ممکن نہیں ہے۔

سرحد پر لگائی جانے والی خاردار باڑ دو طرفہ تار پر مشتمل ہے۔ ان دونوں خاردار تاروں کے مابین دو میٹر فاصلہ رکھا گیا ہے۔ اس باڑ کی اونچائی پاکستان کے طرف 3.6 میٹر (لگ بھگ 11 فٹ) جب کہ افغانستان کے جانب چار میٹر (لگ بھگ 13 فٹ) ہے۔

خاردار باڑ بچھانے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان پاکستانی حدود میں تقریباََ ایک ایک ہزار چوکیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔

پاکستان یہ خاردار باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان طورخم اور چمن سمیت 16 مقامات پر باقاعدہ سرحدی گزرگاہیں بھی تعمیر کر رہا ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق افغانستان میں طالبان میں دو مختلف فکر گروہ موجود ہیں جن کو قندھاری طالبان اور حقانی نیٹ ورکمیں تقسیم کیا جاتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے پاکستان کے ساتھ اچھے روابط ہے جب کہ قندہاری طالبان میں قوم پرست ذہنیت کے حامل افراد کو غلبہ حاصل ہے اور یہی لوگ پاکستان افغانستان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کے مخالف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں