کوہستان ویڈیو سکینڈل کیس کےمدعی افضل کوہستانی کو ایبٹ آباد میں قتل کردیا گیا

Eایبٹ آباد (ڈیلی اردو) خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے شہر ایبٹ آباد کء مشہور زمانہ کوہستان ویڈیو سکینڈل کے مدعی افضل کوہستانی کو دیرینہ دشمنی کی بناء پر مخالفین نے ایبٹ آباد سوزوکی سٹینڈ کے قریب میں گھات لگائے مسلح شخص نے پستول سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے جبکہ فائرنگ کی زد میں آکر تین راہگیر شدید زخمی ہو گئے جنہیں فوری طو رپر ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انہیں تشویش ناک حالت میں ریفر کر دیا گیا ہے۔

جائے وقوع پر موجود افراد نے فائرنگ کرنے والے شخص کو گھیرا ڈال کر پکڑ کے پولیس کے حوالے کر دیا۔

بدھ کی شام ایبٹ آباد سوزوکی سٹینڈ پر کوہستان ویڈیو سکینڈل کے مدعی افضل کوہستانی ولد نورنگ خان ساکنہ پالس پر گھات لگائے بیٹھے مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں افضل کوہستانی ہسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گیا جبکہ تین راہ گیر صابر حسین ولد غلام حسین قوم اعوان ساکنہ شیخ البانڈی، کلیم ولد عاشق جان ساکنہ باجوڑ ایجنسی، سید کرم ولد علی الرحمن ساکنہ باجوڑ ایجنسی شدید زخمی ہو گئے جنہیں موقع پر موجود لوگوں نے فوری طور پر ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا جہاں سے انہیں شدید زخمی حالت میں ایوب ٹیچنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق فائرنگ کر نے والے فیض الرحمن ولد گل رنگ ساکنہ پالس حال الائی بٹگرام کو موقع پر موجود افراد نے گھیرا ڈال کر پکڑ لیا اور اسے تھانہ کینٹ پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ تقریباً آٹھ سال قبل کوہستان میں شادی کی تقریب میں 2010 میں ایک ویڈیو بنائی گئی تھی جس میں چند نوجوان لڑکیاں لڑکے ناچ گانے میں مصروف تھے جو 2012 ۔ میں فیس بک پر وائرل ہوئی تھی جس کی بناء اس محفل میں شریک تین لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ دو زندہ بچ گئی تھیں اور بعد ازاں اس واقعہ میں مزید آٹھ افراد قتل ہوئے تھے اور مجموعی طور پر اس واقعہ میں اب تک بارہ افراد قتل ہو چکے ہیں۔

ویڈیو سکینڈل کا مدعی افضل کوہستانی تھا جس نے پشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بینچ اور سپریم کورٹ آف پاکستان تک مقدمہ لڑا اور اس وقت کے چیف جسٹس نے اس واقعے پر سو موٹو ایکشن لیا تھا اور تین ماہ قبل سپریم کورٹ کے حکم پر ڈی پی او کولائی پالس افتخار خان نے جائینٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات کے دوران اس واقعہ میں ملوث نو ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا تھا۔

گرفتار ہونے والے ملزمان عمر، سحر، صبیر اور سرفراز نے پولیس کی جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے اس بات کا اعتراف کر لیا تھا کہ کہ ویڈیو سکینڈل میں ناچ گانے میں مصروف تین لڑکیوں بازغا، شاہین بی بی دختران صبیر اور سحرین جان دختر سحر کو قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی نعشیں تین پل نالہ میں پھینک دی تھیں جبکہ اسی واقع میں دیگر دو لڑکیوں آمنہ اور بیگم جان کو زندہ چھوڑ دیا تھا جو ابھی تک زندہ ہیں۔

اس واقع پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیشن بنایا تھا جس میں ہزارہ ڈویژن کی انتظامیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے اور اس وقت کے ارکان اسمبلی شامل تھے جنہوں نے کوہستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران عمائدین علاقہ نے جعلی لڑکیوں او ان کے ورثاء کو پیش کر کے واقع کو دبا دیا تھا تاہم موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس سال جولائی میں اس واقعہ کا دوبارہ نوٹس لیا اور پولیس کو مقدمہ درج کر کے واقعہ کی تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ڈی پی او لوہر کوہستان افتخار خان نے اغواء کا مقدمہ درج کر کے واقعہ کی تفتیش شروع کر دی تھی اور دوران تفتیش مذکورہ لڑکیوں کے والدین اور بھائی کو گرفتار کر لیا تھا جنہوں نے تین لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کر لیا اور دو کے زندہ ہونے کی تصدیق کی لڑکیوں کے قتل کی تصدیق فرزنک لیبارٹری اور ناداراکے ڈیٹا، اور ڈی این اے سے یہ بات سامنے آئی تھی جو لڑکیاں اور ان کے ورثاء کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے تھے وہ سارا جعلی اور فرضی کام تھا۔

معروف سماجی کارکن فرزانہ باری اور کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی مقدمہ کے مدعی اور مرکزی کردار تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں