پشاور میں مسلح افراد کی فائرنگ سے پادری ولیم سراج ہلاک، پادری پیٹرک زخمی

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں فائرنگ کے واقعے میں ایک مسیحی پادری ہلاک جب کہ پادری پیٹرک زخمی ہوئے ہیں۔

یہ واقعہ پشاور کی مصروف شاہراہ رنگ روڈ پر پیش آیا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1487735976285794310?t=-ANYT3yP9wthLsmTXWfbOA&s=19

پشاور پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی ابتدائی تفصیلات کے مطابق پشاور کے تھانہ گلبہار کی حدود میں رنگ روڈ پر مدینہ مارکیٹ کے نزدیک مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

فائرنگ کے اس واقعے میں ولیم سراج گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے جس کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔

ولیم سراج چرچ میں اسسٹنٹ پادری تھے

پشاور پولیس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ویلیم سراج علاقہ تھانہ چمکنی کی حدود میں واقع چرچ میں اسسٹنٹ پادری تھے۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ولیم سراج اپنے کسی نجی کام کے سلسلے میں ایک گاڑی میں جا رہے تھے۔

اس واقعے کے بعد پادری ویلیم سراج کو فوری طور پر پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا۔

پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق پادری ولیم سراج ہسپتال پینچنے سے پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔

ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق دوسرے پادری معمولی زخمی ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

دوسری جانب پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا اور تمام داخلی و خارجی راستوں پر مشکوک افراد کی بھی کڑی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے اہم شواہد اکٹھے کر لئے ہیں جبکہ نزدیکی مارکیٹ میں سی سی ٹی وی کیمروں کو چیک کیا جا رہا ہے۔

‘آئندہ دو ماہ تک دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ’

واضح رہے کہ رواں برس کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے بڑے شہروں کو دہشتگردی کی ایک لہر کا سامنا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں ایسے واقعات میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ لاہور کے مصروف انارکلی بازار میں گزشتہ ہفتے ایک بم دھماکے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چند دن قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تصدیق کی کہ ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں دہشتگرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور کارروائیاں جاری ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط ایک طویل جنگ کے بعد اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور معلومات اکٹھی کرنے کا نظام کافی بہتر ہے لیکن آئندہ دو ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشتگردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔

پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

پشاور میں ہی سن 2013 میں ایک چرچ کے باہر دو بڑے خودکش بم دھماکے ہوئے تھے، جس میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان میں مسیحیوں پر ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا۔ تازہ حملے میں ہلاک ہونے والے ویلیئم سراج کے لیے ایک یادگاری تقریب پیر کو آل سینٹ چرچ میں منعقد ہونے والی ہے۔

پاکستان میں مسیحیوں اور بعض دیگر غیر مسلم اقلیتوں کو اکثر دھمکیوں اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسے حملوں کے ذریعے احمدیوں اور شیعوں جیسے دوسرے مسلم گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں