سعد الحریری کی دستبرداری: لبنان میں فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ ملے گا؟

بیروت (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/روئٹرز/اے پی) لبنان میں سنی مسلم رہنما سعد الحریری کے سیاست سے الگ ہونے کے فیصلے نے شیعہ عسکری گروپ حزب اللہ کے ملک میں پہلے سے موجود اثر و رسوخ میں اضافے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

تین بار ملکی وزیرِاعظم رہنے والے حریری نے 24 جنوری پیر کے روز اپنے منصب اور مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے دستبردار ہونے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ایرانی اثر رسوخ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کو مثبت تبدیلی کی امید تھی۔

اس فیصلے سے لبنان کی فرقہ وارانہ سیاست میں ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے۔ لبنان میں اقتدار کی تقسیم کثیر فرقہ وارانہ نظام کے تحت ہے۔ جہاں مختلف فرقے مل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ اس فیصلے سے مالیاتی مسائل سے دوچار اس ملک کو پہلے سے ہی درپیش غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔

حریری کے اس فیصلے سے اس سنی خاندان کے 30 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوگا جسے ماضی میں حزب اللہ کے خلاف جہاد کے لیے سعودی عرب کی حمایت حاصل رہی ہے اور اس جہاد کے نام پر ریاض سے کثیر رقم بھی ملتی رہی ہے۔ حزب اللہ، جسے ایران کے پاسداران انقلاب نے 1982ء میں قائم کیا تھا ایک طویل عرصے تک لبنان کا مضبوط حصہ رہا ہے۔

مالی طور پر مضبوط حزب اللہ اب حریری کے اس اعلان کا فائدہ اٹھانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ حزب اللہ کی اس سوچ سے واقف زرائع کے مطابق اس گروہ کا حدف اب سنی مسلمانوں میں اپنے ایسے اتحادیوں جو کے حریری کی پارٹی کے رکن بھی ہوں اور جن کے پاس سیاسی اثر رسوخ کا فقدان ہو، سے ممکنہ فوائد حاصل کرنا ہے۔ لیکن یہ شیعہ عسکری تنظیم اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے نئے مسائل سے بھی آگاہ ہے۔ اس گروہ کے علاقائی دشمن حریری کی دستبرداری کے بعد کسی ایسے شخص کو برسرِ اقتدار لانے کی کوشش کررہے ہیں جو ماضی میں حریری کی جانب سے ہونے والے سمجھوتوں کی جگہ مقابلہ کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔

حریری کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو دراصل ایران ،امریکا اور اس کے اتحادی عرب خلیجی ممالک کے مابین کشیدگی کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ رواں ماہ ایران کی حمایت والے حوثیوں نے متحدہ عرب امارات پر دو راکٹ حملے کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات جو کے یمن میں مسلط جنگ کا حامی ہے، کا کہنا ہے کہ ان حوثیوں کو حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔ بروزِ ہفتہ 22 جنوری کو ایک خلیجی عرب ملک کے سفیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے لبنان کو اعتماد کی بحالی کے لیے تجاویز پیش کرتے ہوئے شرائط کی ایک فہرست فراہم کی ہے۔ لبنانی سفارتی ذرائع کے مطابق اس فہرست میں اقوام متحدہ کی 18 سال پرانی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے وقت کے تعین کی شرط بھی موجود ہے جس کے تحت حزب اللہ کو غیر مسلحہ کیا جانے کی شرط رکھی گئی تھی۔

سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مطالبے کو بیروت میں خلیجی ریاستوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر لیا جارہا ہے۔ جس نے اکتوبر میں یمن جنگ پر تنقید کرنے پرایک تنازعہ میں لبنانی سفیروں کو ملک بدر کر دیا۔

طے شدہ منصوبے میں تاخیر کیوں؟

ایک گلف نمائندے کے مطابق اس فہرست میں اعتماد سازی اور مغربی مطالبات کے تحت انتخابات وقت پر کروانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ لیکن کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سنی سایست کے پس منظر میں ہونے والے انتخابات میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابات میں تاخیر اس معاملے میں موجود تمام عناصر کے لیے اچھا ثابت ہوگا سوائے حزب اللہ کے مخالفین کے جن میں عیسائی لبنانی عسکری قوتیں بھی شامل ہیں۔

اناہرڈیلی کے ڈپٹی ایڈیٹر ان چیف نبیل بومنسف کے مطابق،” حزب اللہ سمیت لبنان میں موجود تمام طاقتیں اگر یہ سوچتی ہیں کے انتخابات میں تاخیر سے انہیں فائدہ پہنچے گا تو وہ ایسا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘ اگر انتخابات وقت پر ہوتے ہیں تو آنے والی نئی حکومت کے لیے صورتِ حال عام حالات سے بہت مشکل ہوگی اور یہ غیر یقینی صورتِ حال آنے والی حکومت کے لیے معاشی بحران جسے پچھلی حکومت نے 2019ء سے غیر سنجیدگی سے لیا تھا، سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حریری کے فیصلے نے پہلے سے کھٹائی میں پڑے ملکی انتخابات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔‘‘

حریری کے بھائی شاید انتخابات میں حصہ لیں یا کسی کی حمایت کریں لیکن انہوں نے اپنے منصوبے کا اعلان تاحال نہیں کیا ہے۔ انہوں نے سعد حریری کو حزب اللہ کی مدد کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہ حزب اللہ کے لیے صورت حال اس وقت واضح نہیں ہے۔ حریری نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز میں حزب اللہ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن 2008ء کی ایک مختصر خانہ جنگی کے اختتام پر انہوں نے اس عسکری گروہ اور اس کے حامیوں کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے تھے۔ حریری نے پیر کے روز اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی جانب سے کیے گئے سمجھوتوں کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی بند ہوئی تھی۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے رکن ہیکو ویمن نے کہا،”میں نہیں جانتا کہ حزب اللہ حریری کے فیصلے سے کتنا خوش ہے۔ یہ حزب اللہ کے حق میں ہے کہ وہ ظاہری طور پر ایک فعال سیاسی گرہ کی طاقت کے طور پر نظر آئے جہاں سنیوں سمیت ہر کسی کی برابر شمولیت ہو۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں