اسرائیلی صدر کے دورے کے دوران متحدہ عرب امارات پر حوثیوں کا بیلیسٹک میزائل حملہ

ابوظہبی (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/روئٹرز) متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اس نے حوثی باغیوں کی جانب سے ایک بیلیسٹک میزائل حملے کو ناکام بنا دیا۔ ادھر اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات پر ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے 31 جنوری پیر کے روز بتایا کہ جب اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ ملک کا دورہ کر رہے تھے، اسی دوران یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے ایک بیلیسٹک میزائل حملہ ہوا تاہم اسے فضا میں ہی روک کر حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔

اماراتی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ چونکہ میزائل آبادی والے علاقوں سے باہر گرا اس لیے حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔

ادھر آئزک ہیرزوگ کے دفتر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی صدر کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنے دورے کوپروگرام کے مطابق جاری رکھیں گے۔

اسرائیلی صدر نے کیا کہا؟

اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ نے دورے کے دوران کہا کہ اسرائیل متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی سیکورٹی و سلامتی کی ضروریات کی حمایت کرتا ہے اور مضبوط علاقائی تعلقات کا خواہاں ہے۔

اسرائیلی رہنما کے دفتر کے ایک بیان کے مطابق، ہیرزوگ نے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زائد النہیان کو بتایا، ”میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کی سیکورٹی کی ضروریات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ہم آپ کی خود مختاری پر کسی بھی قسم کے حملے کی ہر طرح اور ہر زبان میں مذمت کرتے ہیں۔”

اسرائیل صدر اور متحدہ عرب امارت کے درمیان اس طرح کی بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب کچھ روز قبل ہی یمن کے حوثی باغیوں نے ایک حملہ کیا تھا جس میں متحدہ عرب امارات میں تین عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

ہیرزوگ نے ابوظہبی کے الوطن محل میں شیخ محمد کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک بات چیت کی۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات کا سفارتی دورہ کیا ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کو یکساں خطرات کا سامنا

یمن میں حوثی باغیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے ایک برس بعد جب سعودی زیر قیادت عسکری اتحاد نے 2015 میں یمن میں حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے مداخلت کی، تو متحدہ عرب امارات بھی اس اتحاد میں شامل ہوا تھا اور اس کا ایک حصہ ہے۔

گزشتہ ہفتے جاری کردہ ایک خط کے مطابق، اس ماہ کے اوائل میں، اسرائیل نے ڈرون حملوں کے خلاف متحدہ عرب امارات کو سیکورٹی اور انٹیلیجنس تعاون کی پیشکش کی تھی۔

ادھر متحدہ عرب امارات کے رہنما نے کہا ہے کہ دونوں ممالک، ”علاقائی استحکام اور امن کو در پیش خطرات، خاص طور پر ملیشیاؤں اور دہشت گرد قوتوں سے لاحق خطرات کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔”

ان تمام سخت بیانات کا نشانہ در اصل ایران تھا۔ تہران کے علاقائی ہمسایہ ممالک اور امریکا،ایران پر شام اور یمن کے تنازعات میں ملوث ہو کر مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

اسرائیل قریبی علاقائی تعلقات کا خواہاں

بات چیت کے دوران اسرائیلی رہنما نے خطے کے مزید ممالک پر اس بات کے لیے زور دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں شامل ہو جائیں۔امریکا کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات نے سن 2020میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے چند معاہدوں پر دستخط کیے تھے، جسے ‘معاہدہ ابراہیمی’ کا نام دیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے بھی دسمبر میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔

کئی عرب ریاستیں ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں پرانے تنازعے کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات سے گریز کرتی رہی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے بہت سے ہمسایہ عرب ممالک خطے میں ایران اور اس کی اتحادی افواج کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

اسرائیل اور سعودی عرب میں بھی رشتے بہتر ہیں
متحدہ عرب امارات کے سفر کے لیے راستے میں اسرائیلی صدر کے طیارے نے سعودی عرب کی فضائی حدود کااستعمال کیا اور ملک کے اوپر سے پرواز کیا، جس کے بارے میں آئزک ہیرزوگ نے کہا، ”واقعی یہ ایک بہت ہی بہترین لمحہ تھا۔”

ریاض اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس مملکت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان درپردہ وسیع تر سفارتی اور انٹیلیجنس تعاون ہوتا ہے۔ سعودی عرب ایران کے طاقتور ترین علاقائی حریفوں میں سے ایک ہے۔

ہیرزوگ متحدہ عرب امارات میں چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی یہودی تارکین وطن کی کمیونٹی کے اراکین سے ملنے والے ہیں اور دبئی میں جاری ورلڈ ایکسپو 2020 کا بھی دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں