خیبر پختونخوا میں ’نامعلوم‘ افراد کے ہاتھوں عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ بڑھنے لگی

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) حالیہ چند دنوں میں خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس سلسلے کے چند واقعات میں پشاور میں پادری کا قتل، ضلع ہنگو میں دو ٹریفک پولیس اہلکاروں کا قتل، ڈیرہ اسماعیل خان میں تین شیعہ افراد کا قتل اور کوہاٹ اور بنوں میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔

تازہ ترین واقعہ نوشہرہ میں سب انسپکٹر فیاض اور کانسٹیبل سجاد کے قتل کا ہے جو ڈیوٹی پر مامور تھے کہ ایک گاڑی میں سوار نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کھول دیا جس کے نتیجے میں دونوں ہلاک ہو گئے۔ جبکہ ان کے ڈرائیور اس حملے میں زخمی ہیں۔

یہ واقعہ جمعرات کی شام اس وقت پیش آیا جب نوشہرہ پولیس کے اہلکار جلوزئی کے علاقے میں ایک ناکے پر موجود تھے۔

اگر ہم صرف 2022 کے پہلے مہینے کا ذکر کریں تو اس مہینے میں خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔

اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ گذشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں ان پرتشدد واقعات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماضی میں بڑے دھماکوں کے نتیجے میں ہونے والی متعدد ہلاکتوں کو تو بھرپور کوریج ملتی رہی تھی لیکن اب ٹارٹ کلنگ کے واقعات کو ذرائع ابلاغ میں کم ہی جگہ ملتی ہے۔

بی بی سی نے ان حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان سے معلوم کیا کہ ان کی زندگیاں کیسے بدل جاتی ہیں اور وہ کس طرح متاثر ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے ان پرتشدد واقعات کا احاطہ کرنا ضروری ہے کہ یہ کیسے اور کیوں ہو رہے ہیں۔

اگست کے بعد سے پرتشدد واقعات میں اضافہ

غیر سرکاری ادارے ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں کئی پرتشدد واقعات پیش آئے ہیں جن میں 68 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد عام شہریوں کی ہے جو 24 بتائی گئی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز اور پولیس کے 22 اہلکار مارے گئے ہیں۔

اسی طرح سکیورٹی فورسز اور پولیس کی کارروائیوں میں 22 شدت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس تعداد میں قبائلی علاقوں میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات بھی شامل ہیں۔

تشدد کے بیشتر واقعات بھی ان قبائلی علاقوں میں پیش آئے ہیں جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل 45 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور یہاں بھی زیادہ تعداد عام شہریوں کی بتائی گئی ہے۔

ان حملوں میں چھ سکیورٹی فورسز اور پولیس کے اہلکار، 10 شدت پسند اور 11 عام شہری مارے گئے ہیں۔

سکیورٹی فورسز اور پولیس پر بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے جبکہ عام شہریوں پر ہوئے بیشتر حملوں کے قاتل نامعلوم بتائے گئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سکیورٹی فورسز نے جہاں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں ان میں دو شدت پسندوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے بھی اب اعداد و شمار ذرائع ابلاغ کو جاری کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان کے مطابق ایک مہینے یعنی جنوری میں 42 حملوں میں 48 اہلکار ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا ہے اور سیکیورٹی فورسز کا اسلحہ اور گاڑی بھی تحویل میں لی گئی ہے۔

ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان میں بیشتر حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں جبکہ ایک ایک حملہ کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی اور چمن میں کیے گئے ہیں یعنی 38 حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں۔

قبائلی علاقوں کے لیے قائم سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں تشدد کے کل 25 واقعات پیش آئے ہیں جس میں 45 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

’تحریک طالبان اب بھی حملوں کی اہلیت رکھتی ہے‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان حملوں سے ایسا لگتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان اب بھی حملوں کی اہلیت رکھتی ہے حالانکہ آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ طالبان بکھر گئے ہیں اور یہ دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال نو نومبر سے نو دسمبر تک جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کر کے ٹی ٹی پی نے یہ بھی ثابت کیا کہ تمام دھڑے ایک ہی قیادت کے نیچے متحد ہیں اور یہ کہ اگر قیادت چاہے تو وہ امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ جنگ بندی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

اگر قبائلی علاقوں پر نظر ڈالیں تو کوئی دن بھی شاید ایسا نہیں ہوگا کہ کسی علاقے میں تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔

اگر ایک طرف کالعدم تنظیمیں سکیورٹی فورسز پر حملے کر رہی ہیں تو دوسری جانب ان شدت پسندوں کے خلاف بھی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔

ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ کون ہیں؟

اگرچہ کالعدم تنظیم کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ حملے سکیورٹی فورسز پر کیے جا رہے ہیں تو پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں تین شیعہ افراد کا قتل، پشاور میں ایک پادری کا قتل اور اسی طرح ہنگو کے علاقے ٹل میں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں پر حملے کون کر رہا ہے؟

ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے بیشتر افراد عام شہری ہیں ان کی کسی سے کوئی دشمنی یا ایسی کوئی صورتحال سامنے نظر نہیں آئی جس بنیاد پر انھیں قتل کیا جائے۔

ایک سینیئر پولیس انسپیکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قتل کے بعد وہ تفتیش میں پہلے ذاتی دشمنی کا پہلو مدِ نظر رکھتے ہیں پھر مقتول کی حیثیت اور پھر شدت پسندی کے حوالے سے تفتیش کرتے ہیں۔

’اگر اس امر کو تقویت حاصل ہو کہ یہ قتل شدت پسندی کی وجہ سے ہے تو پھر مقامی سطح پر متحرک ایسے گروہوں اور ان کے سہولت کاروں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تفتیش سے اکثر انھیں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔‘

’ہماری زندگی ویران ہو گئی ہے‘

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پرووا کے ایک چھوٹے سے گاؤں بڈھیسر میں دو بھائی اور ان کے کزن ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔

سجاد حسین کھیتی باڑی کرتے تھے، جبکہ امداد حسین اور مختیار حسین کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن سے وہ اتنا کما لیتے تھے کہ بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کر لیتے تھے۔

ان تینوں افراد کو 17 جنوری کی صبح اچانک دو موٹر سائیکلوں پر آنے والے چار افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی ان کے اہل خانہ کو یہ معلوم نہ ہو سکا ہے کہ انھیں آخر کیوں مارا گیا ہے۔

سجاد حسین کے بڑے بیٹے زاہد علی کی عمر 20 سال ہے اور وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے اپنے والد کی موت کے بارے میں گفتگو کی۔

’میرے ابو اپنے بھائی اور کزن کی دوکانوں پر کبھی کبھار چلے جایا کرتے تھے اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میرے ابو اور چچا دوکان کے باہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد آئے۔ ان میں سے دو دوکان کے اندر داخل ہوئے اور دو افراد باہر کھڑے تھے۔ دکان میں موجود افراد نے فائرنگ کی اور میرے ابو، چچا اور ماموں کو قتل کر کے موقع سے فرار ہو گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اب آتی ہے، تسلی دیتی ہے، اور کہتی ہے کہ ہم کچھ کر رہے ہیں قاتل گرفتار ہو جائیں گے، لیکن نہ تو تفتیش کے طریقہ کار کا علم ہے اور نا ہی معلوم ہو رہا ہے کہ کیسے گرفتاری عمل میں آئے گی۔‘

زاہد علی نے بتایا کہ دوسرے روز رات دیر گئے کچھ لوگ پھر دکان پر آئے تھے جہاں انھوں نے تالے توڑ دیے اور یہ علم نہیں ہوا کہ وہ دوبارہ کیوں آئے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پولیس تالوں سے ان کی انگلیوں کے نشان بھی نہیں لے سکی ہے۔

زاہد علی نے بتایا کہ وہ چھ بہن بھائی ہیں جو سب زیر تعلیم ہیں لیکن ان واقعات کے بعد روزگار کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آ رہا اور ’زندگی میں اندھیرا چھا گیا ہے۔‘

مختیار حسین کی زوجہ نے بتایا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور اس واقعے کے بعد ان کی زندگی ویران ہو گئی ہے۔

’سمجھ نہیں آ رہا کہ اب کیا کریں گے۔ دو وقت کی روٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ خاندان کے تین بڑوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ ہمارا تو اور کوئی بھی نہیں ہے۔‘

پشاور میں پادری کا قتل کیوں؟

ولیم سراج کے دوست اور رشتے دار چند روز قبل ہونے والے اس واقعے پر شدید غمزدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کوئی ولیم سراج کو مار سکتا ہے۔

ولیم سراج کے دوست انجم مسیح نے بتایا کہ سراج انتہائی نفیس انسان تھے اور اس واقعے نے تمام برادری کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

پیر کے روز پشاور شہر میں قائم آل سینٹس چرچ میں ولیم سراج کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

ولیم سراج کے ساتھی منظور مسیح نے بتایا کہ وہ بہت محبت اور لوگوں کی مدد کرنے والے انسان تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی آخری رسومات میں دور دور سے لوگ شریک ہوئے ہیں۔

اتوار 30 دسمبر کی صبح ولیم سراج اور اور ان کے ساتھی پشاور کے رنگ روڈ پر قائم چرچ میں عبادت کے لیے گئے تھے۔

ان کے ساتھی عنایت مسیح نے بتایا کہ جب وہ باہر نکلے تو ایک کیری ڈبے میں بیٹھے۔ گاڑی ولیم سراج کے ساتھی پیٹرک نعیم چلا رہے تھے اور سراج اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور عنایت خود پچھلی سیٹ پر موجود تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ چرچ سے باہر پیٹرول پمپ کے قریب پہنچے تو اتنے میں ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد گاڑی کے قریب پہنچے جن میں سے ایک نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور دوسرے نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔

’انھوں نے فائرنگ کی تو گولی ولیم سراج کی کنپٹی پر لگی اور وہ پیٹرک نعیم کے کندھے پر گر گئے۔ میں سمجھا شاید کسی گاڑی کا ٹائر پھٹا ہے اور یا کہیں باہر کچھ ہو گیا ہے لیکن معلوم یہی ہوا کہ ولیم سراج کو گولی لگی تھی۔ میں نے پیٹرک نعیم سے کہا کہ چلو اپنے علاقے میں جاتے لیکن پیٹرک نے کہا کہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتے۔ اتنے میں ریسکیو 1122 کی گاڑی پہنچی اور دونوں زخمیوں کو ہسپتال لے گئے۔‘

ولیم سراج پشاور کے رنگ روڈ پر چند سال پہلے قائم ہونے والے چرچ کے پادری تعینات ہوئے تھے۔ بشپ آف پشاور نے انھیں یہ ذمہ داری دی تھی جسے وہ احسن طریقے سے سر انجام دے رہے تھے۔

گذشتہ سال اکتوبر میں پشاور میں ہی ایک سکھ حکیم کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے قتل کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

انجم مسیح حالیہ واقعے کے بعد کہتے ہیں کہ اب وہ خوف زدہ ہیں۔

’ہمارے مذہبی رہنما آزادی سے باہر نہیں جا سکتے جبکہ ہمارے کچھ رہنما بیرونِ ملک جا کر کہتے ہیں کہ اقلیت پاکستان میں محفوظ ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں