کابل ایئر پورٹ حملے میں ایک خودکش بمبار ملوث تھا، امریکی جنرل فرینک میکنزی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/روئٹرز) امریکا نے اپنی تفتیش سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگست 2021ء کے کابل ہوائی اڈے کے دھماکے کا ذمہ دار ایک ہی شخص تھا۔ طالبان کے کنٹرول کے بعد جب لوگ ملک سے نکلنے کی کوشش میں تھے اس دوران اس حملے میں 183 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی فوج نے گزشتہ برس کابل کے ہوائی اڈے پر ہونے والے بھیانک بم دھماکے کے بارے میں اپنی تفتیش سے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ حملہ تنہا ایک ہی خود کش بمبار نے انجام دیا تھا۔ اس حملے میں 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل فرینک میکنزی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسلامی شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک نام نہاد جنگجو 20 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد سے لیس تھا۔ اس نے ہوائی اڈے کے ایک گیٹ کے قریب لوگوں کے زبردست ہجوم کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

تفتیش سے ابتدائی غلط تجزیے کی وضاحت ہوئی

اس دھماکے کے فوری بعد حکام کی جانب سے جو اطلاعات فراہم کی گئی تھیں، ان میں کہا گيا تھا کہ دو دھماکے ہونے کے ساتھ ہی فائرنگ کی بھی آوازیں سنی گئیں۔ تاہم تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ایک ہی دھماکہ ہوا تھا، اور فائرنگ کی آوازیں ان انتباہی شاٹس کا نتیجہ تھیں جو دھماکے کے فوراً بعد امریکی اور برطانوی فوجیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔

میکنزی نے بتایا، ’’ایک ہی دھماکہ خیز ڈیوائس نے کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ گیٹ پر موجود ایک بڑے ہجوم میں بیئرنگ کے چھروں کے دھماکے سے مردوں اور خواتین کو نشانہ بنا کر یہ ہلاکت خیز حملہ کیا گيا۔‘‘

جس وقت یہ خود کش حملہ ہوا اس وقت ہزاروں مرد، خواتین اور بچے ملک سے باہر جانے والی پروازوں میں سوار ہونے کی مایوس کن کوشش کے لیے ایئرپورٹ کے باہر جمع ہو رہے تھے۔ طالبان نے اس حملے سے چند روز قبل ہی دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا تھا اور بہت سے لوگوں میں ان کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خدشات تھے اسی لیے افراتفری کا ماحول تھا۔

حملے کو روکنا ممکن نہیں تھا

اس حملے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے قائد بریگیڈیئر جنرل لانس کرٹیز کے مطابق حملے کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری تحقیقات کی رو سے، تکنیکی سطح پر اسے روکا نہیں جا سکتا تھا۔‘‘

جنرل میکنزی نے بھی اسی بات کی نشاندہی کی کہ علاقے میں فوجیوں کے تمام حفاظتی ساز و سامان اور بند و بست کے باوجود اسے روکنا بہت مشکل تھا: ’’اس دھماکہ خیز ڈیوائس کی پریشان کن تباہ کاری کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ عالمی سطح کے جسمانی بکتر بند اور ہیلمٹ سے لیس ہونے کے باوجود امریکا کے 58 فوجی اس کی زد میں آ کر ہلاک یا پھر زخمی ہو گئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بکتر بند اور ہیلمٹ کی وجہ سے بیئرنگ کے چھروں سے ہونے والے تباہ کن اثرات کو کافی حد روکا بھی جا سکا تاہم ’’جسم کے جو اعضاء اس سے ڈھکے ہوئے نہیں تھے، ان پر تباہ کن چوٹیں آئیں۔‘‘

اس تفتیش میں طبی ماہرین اور دھماکہ خیز مواد کے ماہرین سمیت 100 سے زائد گواہوں سے شہادتیں جمع کی گئیں۔ ڈرونز اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی فوٹیج اور تصاویر کی بھی جانچ پڑتال کی گئی تاکہ ان واقعات کی حقیقت آشکار اور واضح ہو سکے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکا نے مختلف ممالک کی ایئر لائنز کی مدد سے، انخلا کا جو آپریشن شروع کیا تھا اس کے تحت تقریبا ایک لاکھ 26 ہزار افراد کو کابل سے نکالا گيا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں