یوکرین کے چرنوبل ایٹمی پلانٹ پر روس کا قبضہ

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روس کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین میں واقع چرنوبل جوہری پلانٹ میں تابکاری کی سطح ’نارمل‘ ہے۔ یاد رہے کہ یوکرین میں واقع اس جوہری پلانٹ پر روس نے یوکرین پر حملے کے پہلے ہی روز قبضہ کر لیا تھا۔

وزارت دفاع کے ترجمان آئگور کوناشنخوف کا یہ بیان روس کے نیوز چینل ’روسیا 24‘ کے ذریعے نشر کیا گیا ہے۔ اس سے قبل یوکرین کی پارلیمان کے ٹیلی گرام چینل کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا کہ چرنوبل زون میں تابکاری کی سطح نارمل سطح سے بڑھ رہی ہے۔

یوکرین پر حملے کے پہلے روز یعنی 24 فروری کو روس کے فوجی اہلکاروں نے اس پورے علاقے کو اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا جہاں چرنوبل جوہری پلانٹ واقع ہے۔

روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ’جوہری پلانٹ میں تابکاری کی سطح نارمل ہے جبکہ یہاں موجود اہلکار صورتحال پر بغور نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

روسی اور خصوصی یوکرینی اہلکاروں کی موجودگی اس لیے ضروری سمجھی گئی تاکہ موجودہ کشیدہ صورتحال کے تناظر میں کوئی قوم پرست یا دہشت گرد تنظیم فائدہ اٹھا کر کسی بڑے نقصان کا سبب نہ بنے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے گذشتہ روز کہا تھا کہ یوکرینی فورسز ان روسی افواج سے برسرپیکار ہیں جو چرنوبل میں نیوکلیئر پاور پلانٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔

چرنوبل پلانٹ کی تاریخ

یوکرین میں یہ وہ مقام ہے جہاں سنہ 1986 میں جوہری تباہی آئی تھی۔

ایک حادثے کے نتیجے میں اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعائيں نکل پڑیں تھیں جو یورپ کے بعض علاقوں کی فضا میں پھیل گئی تھیں اور جس کی وجہ سے تھائرائڈ کینسر میں اضافہ دیکھا گیا۔

اس واقعے کے بعد پلانٹ کے ارد گرد ایک ہزار مربع میل پر پھیلے وسیع علاقے کو الگ تھلگ کر دیا گیا تھا اور اب یہ ایک ممنوعہ علاقہ ہے جہاں کوئی نہیں رہتا۔

یوکرین کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس متروک علاقے میں موجود جوہری تابکاری کی وجہ سے لوگ آئندہ 24 ہزار سال تک اس علاقے میں آباد نہیں ہو سکیں گے۔

بعدازاں چرنوبل جوہری پلانٹ کے منصوبے کو واپس لے لیا گيا اور اسے سنہ 2000 میں بند کر دیا گیا۔

تجربہ جو عالمی سانحے میں بدل گیا

26 اپریل 1986 کو رات ایک بج کر 23 منٹ پر انجینیئرز نے چرنوبل جوہری پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر چار کے چند حصوں کو پاور کی سپلائی منقطع کر دی۔

تجربے کا یہ اہم مرحلہ ان ممکنہ حالات کو سمجھنے کی کاوش کا حصہ تھا جو ری ایکٹرز کو بجلی کی مکمل عدم دستیابی یا بلیک آؤٹ کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔

لیکن انجینیئرز کو یہ علم نہیں تھا کہ ری ایکٹر پہلے سے ہی غیر مستحکم تھا۔

پاور منقطع ہونے سے ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی پہنچانے والی ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہو گئی۔ کم پانی کی وجہ سے زیادہ بھاپ بننے لگی اور نتیجتاً ری ایکٹر کے اندر دباؤ بڑھنے لگا۔

جب آپریٹرز کو اس صورتحال کا علم ہوا اور انھوں نے ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔

دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئے۔

مہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی۔

بعد ازاں ان میں سے 134 کارکنوں میں تابکاری سے متعلقہ بیماریوں کی تشخیص ہوئی۔ ان 134 میں سے 28 کارکنوں کی موت اس واقعہ کے چند ماہ کے اندر ہی واقع ہو گئی جبکہ بچ جانے والوں میں سے اب تک 19 مذید ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’پانی اور مٹی کے نمونے حاصل کرنے کے لیے ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے روزانہ کیئو (یوکرین کا دارالحکومت) سے آتے تھے۔‘

’ایکسکلوژن زون (ممنوعہ علاقے) کا پہلا نقشہ بنانے کے لیے اس وقت اہم یہ تھا کہ اس بات کا پتا لگایا جائے کہ ماحول میں تابکار آلودگی کا پھیلاؤ کس حد تک موجود ہے۔‘

یہ ایکسکلوژن زون یوکرین اور بیلاروس تک پھیلا ہے۔ یہ علاقہ 4،000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو کہ لندن کے رقبے کے دگنے سے بھی زائد ہے۔

پلانٹ کے 30 کلومیٹر کے حصار میں موجود تمام آبادیوں کا انخلا عمل میں آیا اور کسی کو وہاں دوبارہ جا کر بسنے کی اجازت نہیں تھی۔

اس حادثے کے چند ماہ بعد ممنوعہ متاثرہ علاقے کے بیرونی حصے میں لوگوں کو خاموشی سے ان کے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔

نیروڈیچی 2،500 لوگوں پر مشتمل ایک آبادی ہے۔

’30 کلو میٹر زون‘ سے مختلف اس تقریباً غیر آباد علاقے میں آمد و رفت روکنے کے لیے چیک پوائنٹس موجود نہیں ہیں۔ اس تابکاری سے متاثرہ علاقے پر کڑے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین کو کاشت کاری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کو آباد کیا جا سکتا ہے۔

آج نقشے پر یوکرین کے اس حصے کو دو حصوں یعنی آلودہ یا صاف میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔

ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرنوبل حادثے کے بعد کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے اور یہاں کا جغرافیہ نیروڈیچی پر لاگو ہونے والے ‘ڈو ناٹ ٹچ’ (یا ہاتھ مت لگائیے) جیسے کڑے قوانین سے زیادہ عجیب اور دلچسپ ہے۔

نیروڈیچی کے باشندوں کو تابکار شعاعوں سے زیادہ تابکار شعاعوں کا خوف نقصان پہنچا رہا ہے۔

’یہاں تابکاری جہاز میں موجود تابکاری سے کم ہے‘

سنہ 2019 میں یوکرینی سائنسدان گیناڈی لیپٹوو اور نمائندہ بی بی سی وکٹوریہ گِل نے اس علاقے کا ایک ہفتے پر محیط دورہ کیا تھا۔ اس وقت صورتحال کیا تھی ذیل میں اس کی تفصیلات بیان کی جا رہی ہیں۔

ہم ایک خشک قطعہ زمین پر کھڑے ہیں جو کبھی چرنوبل جوہری پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے والا تالاب ہوتا تھا۔

کشادہ کندھوں والے گیناڈی لیپٹوو کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ یہاں گزارا ہے۔ میں فقط 25 سال کا تھا جب میں تابکاری سے متاثرہ علاقے کی صفائی کے لیے یہاں آیا تھا۔ اب میں تقریباً 60 سال کا ہوں۔‘

سنہ 1986 میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخ کے بدترین جوہری حادثے کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والے اس خطرناک صفائی کے کام میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا تھا۔

گیناڈی نے مجھے میز کے سائز کا گرد اکٹھا کرنے والا پلیٹ فارم دکھایا۔ سنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔

گرد جانچ کر تابکار آلودگی کا اندازہ لگانا اس وسیع و عریض ویران علاقے پر کی جانے والی دہائیوں پر مشتمل ریسرچ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔

تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع نیوکلئیر پلانٹ کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔

یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔

سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔

انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔

کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘

چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔

ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیں۔

میرے اس علاقے میں قیام کے چوتھے روز ہم ماریہ کے گھر گئے۔

اُس دن ان کی 78 ویں سالگرہ تھی۔ وہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں اور انھوں نے ہمارے لیے ناشتہ تیار کیا ہوا تھا۔

ماریہ نے مجھے، میرے ساتھیوں اور مترجم ڈینیس کو پھلدار درخت کے نیچے پڑے لکڑی کے میز پر بیٹھنے کی دعوت دی۔

انھوں نے کہا ’اگر آپ کو یہ واڈکا نہیں پسند تو آپ چیری والی لے لیں، یہ میں نے بنائی ہے۔‘

ماریہ اور ان کے پڑوسی 15 لوگوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا ’ہم سب بہت بوڑھے ہیں اور ہم مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے۔‘

زیادہ تر لوگ پریپیت میں رہتے تھے۔ یہ شہر خاص طور پر پاور پلانٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

حال ہی میں تھوڑے دورانیے کے لیے پریپیت کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اب یہ یوکرین میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ جگہ بن گئی ہے۔ پچھلے سال 60 ہزار افراد نے ڈرامائی انداز میں ہونے والی بوسیدگی کو دیکھنے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔

گیناڈی کہتے ہیں ’لوگ چاہتے ہیں کہ یہاں زندگی کی رونق مذید بڑھے۔ اور ہم بطور سائنسدان جانتے ہیں کہ اس علاقے میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جن پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت مثبت قدم ہو گا۔‘

میں نے نیروڈیچی میں چھوٹے بچوں کے سکول کا دورہ کیا جہاں بچے دھوپ میں باہر کھیل رہے تھے۔

کنڈرگارٹن منیجر تاتیانا کراوچینکو کا کہنا ہے ’متاثرہ علاقے کی صفائی کے سلسلے میں بچوں اور اساتذہ کا انخلا ہوا تھا۔ تین ماہ میں ہمیں واپس بھیج دیا گیا اور ہمارے پاس 25 بچے تھے۔ رفتہ رفتہ لوگ واپس آئے، نئے بچے پیدا ہوئے اور بچوں کے سکول دوبارہ سے بھرنے لگے۔ اب ہمارے پاس 130 بچے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم یہاں رہتے ہیں۔ ہمارے بچے یہاں رہتے ہیں۔ ہم کہیں اور نہیں جائیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں