تحریکِ طالبان پاکستان کیساتھ مذاکرات جاری ہیں، پاکستانی فوج کی تصدیق

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستانی فوج نے تصدیق کی ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، تاہم ان میں کوئی خاطر خواہ ‘بریک تھرو’ نہیں ہوا۔

پاکستانی فوج کے ایک سینئر افسر نے حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے دورۂ شمالی وزیرستان کے دوران بتایا کہ پاکستانی علما، جرگہ اور مقامی رہنماؤں پر مشتمل وفود نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قیامِ امن کے لیے مقامی قبائلی رہنما افغان طالبان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اس وقت افغانستان میں ہی موجود ہے۔

البتہ پاکستانی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ دیرپا امن اور جامع بات چیت کے لیے مذاکرات حکومتی سطح پر ہونے چاہئیں۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے بھی تصدیق کی تھی کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اُن کے مذاکرات جاری ہیں اور اس حوالے سے گزشتہ برس نومبر میں ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ البتہ جنگ بندی کی مدت پوری ہونے کے بعد فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

امن و امان کا قیام حکومت کے لیے نیا چیلنج

تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب خیبرپختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حال ہی میں پشاور کی ایک شیعہ جامع مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 60 سے زائد ہلاکتوں کے بعد حکام کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گو کہ ٹی ٹی پی نے اس دھماکے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، تاہم صوبے میں امن وامان برقرار رکھنا حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج بنا چکا ہے۔

پاکستانی حکام پرامید تھے کہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو گی۔ پاکستانی حکام ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلی جنس پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے الزامات عائد کرتے تھے۔

البتہ سابق افغان انتظامیہ اور بھارت ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کے بعد پاکستانی حکام نے اعتراف کیا تھا کہ افغان طالبان کے ہوتے ہوئے بھی سرحد پار سے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔

فروری میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پاکستان میں 22 حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔

مذاکرات میں اب تک کیا ہوا؟

پاک فوج کے سینئر اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے افغان طالبان کا افغانستان میں امریکہ کے خلاف 20 سال تک ساتھ دیا ہے۔ اس لحاظ سے افغان طالبان پر پاکستانی دباؤ کا اثر محدود پیمانے پر ہی ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں جرگے کے رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گزشتہ ماہ 19 فروری کو تین روزہ دورے پر ٹی ٹی پی کمانڈر حافظ گل بہادر سے ملاقات کے لیے سرحد پار گئے تھے۔

اُن کے بقول حافظ گل بہادر سے اُن کی براہِ راست ملاقات تو نہیں ہوئی، تاہم حافظ گل بہادر گروپ کے اراکین نے بتایا کہ وہ افغان طالبان کے ذریعے جرگے کے اراکین سے بات کریں گے۔ تاہم دو ہفتے بعد تاحال کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ محسود قبیلے کا ایک جرگہ بھی تحریکِ طالبان پاکستان کے کمانڈرز سے ملنے افغانستان گیا تھا جس کی تفصیلات تا حال میڈیا پر سامنے نہیں آئی ہیں۔

ڈیورڈ لائن بین الاقوامی سرحد ہے، پاکستانی فوج

پاک فوج کے مطابق ڈیورنڈ لائن انٹرنیشنل سرحد ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستانی فوج کے افسر کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان سے متصل صوبہ خوست کے اطراف سرحد پر باڑ لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے جب کہ پاکستانی فوج کی یونٹس باڑ کی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد پاکستان سرحد پر باڑ اُکھاڑنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی تھیں۔

اس دوران بعض افغان طالبان رہنماؤں کے بیانات بھی سامنے آئے تھے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتے۔

البتہ بعدازاں حکومتِ پاکستان اور طالبان حکومت کے نمائندوں نے ان معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

‘سو فیصد علاقہ اب حکومتی کنٹرول میں ہے’

شمالی وزیرستان میں تعینات سیون ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل نعیم اختر نے بتایا کہ 2005-2008 تک شمالی وزیرستان پر حکومتی رٹ نہ ہونے کی برابر تھی تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد سے اب سو فی صد علاقہ حکومتی کنٹرول میں ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سول ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر علاقے میں سڑکوں، تعلیمی ادارے، ووکیشنل سینٹر اور زراعت کے شعبوں میں علاقے کی ترقی پر کام ہو رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں