پشاور: خودکش حملے کے ماسٹر مائنڈ کی دھماکے سے قبل ہی گرفتاری کا انکشاف

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت پشاور شہر کے وسط کوچہ رسالدار کے شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کو نشانہ بنانے والے داعش خراسان تنظیم کا ماسٹر مائنڈ گزشتہ سال کے آخری مہینہ دسمبر میں ہی انٹیلی جنس حکام کے ہتھے چڑھ گیا تھا، گروپ کا مقصد 25 دسمبر کو صدر میں چرچ کو نشانہ بنانا تھا تاہم سخت سیکیورٹی کی وجہ سے ممکنہ منصوبہ ساز ہدف حاصل نہ کرسکے اور انہوں نے شیعہ جامع مسجد کو نشانہ بنالیا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خودکش حملہ آور جو کہ پشاور کا رہائشی تھا اس نے آٹھویں کا امتحان ٹاپ کرکے پاس کیا، انٹیلی جنس ادارے پہلے سے اس کی تلاش میں تھے تاہم وہ ہتھے نہ چڑھ سکا۔

ذرائع کے مطابق حملے کے روز کوچہ رسالدار میں مسجد کو نشانہ بنانے والا گروپ پہلے ہی انٹیلی جنس اداروں کی نظروں میں تھا کیونکہ گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں گروپ کے ایک اہم رکن اور ماسٹر مائنڈ کو سیکیورٹی ایجنسیوں نے بہت محنت کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔

دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا کہ ایک خودکش بمبار پشاور صدر میں دھماکے کے لیے پاکستان پہنچ گیا ہے جو کہ 25 دسمبر کو کرسمس کی تقریبات کو نشانہ بنائے گا۔ ان معلومات کے بعد پاکستانی سیکیورٹی حکام نے متعلقہ چرچ سمیت مسیحی برادری اور دیگر اقلیتی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی سخت کردی تھی۔

ذرائع کے مطابق دسمبر سے ہی سیکیورٹی ایجنسیاں اس خودکش حملہ آور کی تلاش میں تھیں۔ ماسٹر مائنڈ سے ملنے والی معلومات پر خودکش حملہ آور کے نہ صرف والدین اور قریبی رشتہ داروں کو بھی نگرانی میں لے لیا گیا تھا بلکہ اس کے دوستوں اور مدرسہ کی بھی مسلسل نگرانی کی جا رہی تھی تاہم بدقسمتی سے خودکش حملہ آور افغانستان سے آنے کے بعد سیدھا ہینڈلر کے ہاتھوں لگ گیا۔

اب تک کی تحقیقات کے مطابق خودکش حملہ آور جس کا اصل نام تفتیش کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا تاہم اس کی عرفیت عبداللہ کے نام سے تھی۔ تفتیشی اداروں کے مطابق عبداللہ کے والدین افغان جنگ کے دوران پاکستان منتقل ہوئے۔ پہلے قبائلی ضلع باجوڑ میں رہائش اختیار کی اور بعد ازاں پشاور منتقل ہو گئے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبداللہ کے مذہبی سخت گیر ہونے کا اس وقت پتا چلا جب آٹھویں کے امتحان میں اپنے اسکول کو ٹاپ کرنے کے بعد اس نے اپنی خاتون پرنسپل سے انعام لینے سے انکار کر دیا۔

قریباً چار سال قبل عبداللہ لاپتا ہوگیا تھا اور اس کے والدین نے اس کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ پشاور کے مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کروائی تھی۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ پشاور سے لاپتہ (غائب) ہونے کے بعد عبداللہ بلوچستان چلا گیا جہاں پر اس نے باقاعدہ تربیت حاصل کی اور بعد ازاں بلوچستان میں حکومتی کارروائیوں کے بعد افغانستان چلا گیا۔

حکام کا خیال ہے کہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں عبداللہ چمن سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا اور بعد ازاں پشاور پہنچایا گیا۔

ایک سیکیورٹی عہدے دار نے حملے کی تمام تر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز دیکھی ہیں اس نے نجی ٹی وی چینل ایکسپریس کو بتایا کہ خودکش حملہ آور کی تربیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے 3 سیکنڈ میں دو فائر کیے، خودکش حملہ آور مسجد کے اندر منبر کے قریب پھٹنا چاہتا تھا تاکہ مسجد پوری کی پوری بیٹھ جائے۔

اس عہدے دار کے مطابق عبداللہ کے لیے حملہ کی جگہ نئی نہیں تھی بلکہ وہ باقاعدہ اس کی ریکی کرچکا تھا کیونکہ اس کی کارروائی اس کے قدموں کے حساب سے تھی جس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے ہی سے تیار ہو کر آیا تھا۔

سیکیورٹی اہلکاروں کے مطابق چونکہ گروپ پہلے سے ان کی نظر میں تھا اس لیے گروپ کی نشاندہی اور اس کے خلاف ایکشن میں کافی کامیابی ملی۔ ان کے خیال میں چرچ پر سیکیورٹی سخت ہونے کی وجہ سے گروپ نے ایک آسان ہدف کو فرسٹریشن میں نشانہ بنایا کیونکہ ملنے والی اطلاعات کے بعد اقلیتی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں