پشاور: سانحہ کوچہ رسالدار اور داعش کا خطرہ، سیکیورٹی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) پشاور میں چند روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ اس وقت تحریک طالبان اور کسی بھی اور مسلح تنظیم سے زیادہ اس خطے کو داعش سے خطرہ ہے۔ انسپکٹر جنرل کا یہ جملہ صحافیوں کے ساتھ ساتھ اسے سننے اور پڑھنے والوں کیلئے بھی کسی انکشاف سے کم نہیں تھا لیکن کوئی بھی اس بات کو اس حد تک سنجیدہ نہیں لے رہا تھا جتنا سنجیدہ اب لیا جا رہا ہے اور اس سنجیدگی کی سب سے بڑی وجہ جمعہ کے روز پشاور کے کوچہ رسالدار کی شیعہ جامع مسجد میں ہونے والا خودکش حملہ ہے جس کی ذمہ داری اسلامک سٹیٹ آف خراسان یعنی داعش خراسان نے قبول کر لی ہے۔

پشاور میں اس کالعدم تنظیم کی کارروائیاں گزشتہ چند ماہ سے جاری ہیں جبکہ پشاور کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور دیگر کئی دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی یہ تنظیم قبول کر چکی ہے۔

افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد داعش نے مسلسل جمعہ کے دو اجتماعات کو نشانہ بنایا اور ان حملوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک جبکہ اڑھائی سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کے بعد داعش نے پاکستان میں بھی کارروائیاں شروع کر دیں اور اب پشاور میں ہونے والا جامع مسجد کوچہ رسالدار دھماکہ اس خطرے کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے جس میں 62 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

کیا داعش واقعی اتنی خطرناک ہے؟

سکیورٹی امور کے حوالے سے گزشتہ دو دہائیوں سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ سینئر صحافی افتخار فردوس داعش کو خطرہ قرار دیتے ہیں تاہم وہ اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت سکیورٹی اداروں میں دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2004 میں جب پولیس اور سکیورٹی اداروں کو ایک انجانے خطرے کا سامنا تھا تو وہ انتہائی مشکل وقت تھا تاہم اب پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے تحریک طالبان اور القاعدہ سمیت کئی عالمی دہشتگرد تنظیموں کا مقابلہ کر کے مہارت حاصل کر چکے ہیں، آن لائن داعش سمیت تمام مسلح تنظیموں کا لٹریچر انتہائی آسانی سے میسر ہے اور اس کا مقابلہ کرنے میں ہمارے اداروں کو مزید فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں کوچہ رسالدار کا واقعہ آرمی پبلک سکول کے بعد سب سے بڑا سانحہ ہے جو کئی واقعات کی ایک کڑی ہے، داعش نے صرف پشاور کے ایک واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کہ بلکہ پشاور میں 7 واقعات ایسے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری داعش قبول کر چکی ہے۔

سابق سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کوچہ رسالدار میں ہونے والا دھماکہ ایک فرقہ کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا، ماضی میں اس شیعہ فرقہ کو نشانہ بنانے کیلئے سب سے موثر قوت لشکر جھنگوی تھی، اس نے بھی افغانستان اور پاکستان میں اسی فرقہ کو نشانہ بنایا، اسی طرح جیش محمد، حرکت المجاہدین، العالمی، الفرقان اور لشکر طیبہ جیسی کئی تنظیمیں بھی احرار بن جاتی ہیں اور کبھی وہ داعش کے نام سے سامنے آ جاتی ہیں، اگر کل داعش یہ کارروائیاں ختم کر دیتی ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ ذہنیت رکھنے والے کسی اور تنظیم کو تلاش کریں گے۔

افتخار فردوس کہتے ہیں کہ کوچہ رسالدار واقعہ سے قبل ہونے والے تمام واقعات کو سکیورٹی اداروں نے آسان نہیں لیا، گزشتہ برس 15 اگست کو جب طالبان کو اقتدار ملا تب سے داعش کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس خطرے کا سامنا کرنے میں مشکل اس لئے پیش آئے گی کیونکہ یہ تنظیم ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ زیادہ منسلک ہے۔

افتخار کے مطابق سب سے بڑا چیلنج اب ہمارے سکیورٹی اداروں کیلئے سائبر کا ہو گا، اسی طرح یہ تنظیم اکیلی ہے، اس کا کوئی ساتھی نہیں ہے، داعش کی جھڑپیں تحریک طالبان اور افغان طالبان کے ساتھ ہوتی رہی ہیں جو اس تنظیم کو تنہا کرتی ہیں لیکن اسے زیادہ خطرناک بھی بنا دیتی ہیں۔

داعش کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

سید اختر علی شاہ سمجھتے ہیں کہ بنیادی خطرہ پاکستان کو ایک مخصوص ذہنیت سے ہے، گزشتہ 42 برسوں میں ایک مخصوص ذہن ہی کارفرما ہے، پاکستان نے خود تربیت دے کر جہادیوں کو افغانستان بھیجا، پھر 90 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آ گئی اور وہ ایک رول ماڈل بن گئے ان کیلئے جو پاکستان میں بھی ایسی حکومت چاہتے تھے، 9/11 کے بعد کوئی نئی تحریک سامنے نہیں آئی بلکہ پہلے سے موجود تنظیموں نے ہی تحریک طالبان پاکستان کی چھتری تلے کارروائیاں شروع کر دیں۔

داعش کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دیکھا جائے تو 20 سال قبل پولیس کی افرادی قوت اس صوبے میں صرف 32 ہزار تھی جو اب بڑھ کر ایک لاکھ سے زائد ہے، اسی طرح ایلیٹ فورس بن گئی، سی آئی ڈی کی استعداد کار بڑھ گئی، فوج نے پولیس کی تربیت کی، انسداد دہشتگردی فورس تیار کی گئی، پولیس کے پاس کلاشنکوف سے لے کر راکٹ لانچر تک موجود ہے، بم ڈسپوزل سکواڈ بن گیا، فون ٹریکنگ سسٹم بھی میسر آ گیا اور اس ضمن میں پولیس کو کئی سہولیات مل گئی ہیں، ماضی میں پولیس اپنا دفاع نہیں کر سکتی تھیم آج پولیس مقابلہ کرتی ہے اور آپریشنز بھی کر رہی ہے لیکن اس مسئلہ کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

افتخار فردوس سمجھتے ہیں کہ اس خطے میں جتنی بھی دہشتگرد تنظیمیں ہیں ان کی بنیاد پاکستان یا پھر افغانستان میں ہے تاہم داعش وہ واحد تنظیم ہے جس کی بنیاد مقامی نہیں ہے بلکہ اس تنظیم کو عراق اور شام سے درآمد کیا گیا ہے، یہ تنظیم کوئی بھی کارروائی کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری شام اور عراق سے قبول کی جاتی ہے، مقامی سطح پر اس تنظیم کا کوئی ایسا منظم نیٹ ورک نہیں ہے جو اس کی ذمہ داری قبول کرے، اس تنظیم کے مالی اخراجات بھی ایک اہم معاملہ ہے جس پر غور کی ضرورت ہے، دیگر تنظیمیں بھتہ خوری اور دیگر ذرائع سے آمدن اکٹھی کرتی ہیں تاہم داعش کی آمدن کا ذریعہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے، اس تنظیم سے متعلق زیادہ تر معلومات اب تک پوشیدہ ہیں جن کا سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔

سید اختر علی شاہ کے مطابق داعش سمیت ہر قسم کی دہشتگردی کی روک تھام کیلئے مربوط حکمت عملی درکار ہے، نیشنل ایکشن پلان میں اب تک کتنے نقاط پر عمل کیا گیا ہے؟ ان سب میں انتہائی اہم نقطہ پرتشدد ذہنوں کی تیاری روکنا ہے، یہ ذہن صرف مدارس میں نہیں بنتے بلکہ اس میں سکول بھی ہیں اور تربیت کے ادارے بھی ہیں جہاں ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں، ان کے نصاب میں ہے کیا؟ حکومتوں کی جانب سے اپنی پالیسیوں کیلئے مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے جس کے باعث اس کی روک تھام انتہائی مشکل ہے لہٰذا ریاست کو اس حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے سے روکنا ہو گا۔

کوچہ رسالدار دھماکے کے سہولت کارروں کی گرفتاری کتنی اہم؟

سینئر صحافی افتخار فردوس کہتے ہیں کہ حملہ آور نے جو کرنا تھا وہ کر دیا، 63 افراد ہلاک دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی زخمی لوگ ٹھیک ہیں، یہ واقعہ ایک سکیورٹی لیپس ہے اور اسے تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے، داعش مقامی سطح پر خود کو دیگر تنظیموں کی طرح نہیں پھیلاتی، دوسری دہشتگرد تنظیمیں عمومی طور پر بڑے بڑے گروہ بناتی ہیں اور ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں لیکن داعش ایک چھوٹے سے سیل میں کام کرتی ہے، اس سیل تک پہنچ کر اسے ختم کیا جا سکتا ہے جس سے اس سیل کی کارروائیاں بھی رک جائیں گی تاہم اس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ایک سیل اس تنظیم کے بڑے سرکردہ لوگوں تک رسائی میں مددگار ہو سکتا ہے، خیبر پختونخوا میں اس ایک سیل کی طرح دیگر کئی سیل بھی کام کر رہے ہوں گے جن سے متعلق اس سیل سے معلومات ملنا انتہائی ضروری ہے۔

اختر علی شاہ کی رائے بھی زیادہ مختلف نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ تکنیکی طریقہ کار کے تحت آپریشن کیا جاتا ہے، سہولیت کار گرفتار ہوتے ہیں، انہیں سزا دی جاتی ہے لیکن اصل معاملہ ماسٹر مائنڈ کا ہے جو اس طرح کے ذہن تیار کر رہے ہیں، ان کا لٹریچر آن لائن، ای میل اور چھپائی کی صورت میں آسانی سے دستیاب ہے، یہ لوگ میرے محلے، گلی کوچوں میں موجود ہیں، ان لوگوں کو سماجی اور جسمانی طور پر ہمارے معاشرے میں جگہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کام کے لوگوں کو ڈھونڈ کر اپنے ساتھ بھرتی کر لیتے ہیں جس کے بعد ان کی تربیت کرتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی کے تحت انہیں استعمال کرتے ہیں۔

داعش سمیت زیادہ تر دہشتگرد تنظیمیں اب انٹرنیٹ کا استعمال اپنے پرچار اور ہم خیال لوگوں کی تلاش کیلئے کر رہی ہیں ایسے میں جہاں سائبر سکیورٹی کے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے وہیں والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بالخصوص اور نوجوانوں پر بالعموم نظر رکھیں کہ وہ انٹرنیٹ پر کون سا مواد دیکھنا پسند کرتے ہیں، اسی طرح ان نوجوانوں کے ساتھ بحث و مباحثہ میں جن امور پر بات کی جاتی ہے اس حوالے سے بھی والدین کو کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب نصاب کی جانچ بھی انتہائی ضروری ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت نیشنل سکیورٹی پالیسی کو معاشی امور کے ساتھ ساتھ سماجی و تعلیمی امور سے مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں