آصفہ بھٹو کے ساتھ ڈرون ٹکرانا سوچا سمجھا حملہ تھا، آئی ایس آئی تحقیقات کرے، بلاول بھٹو زرداری

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے اُن کے حکومت مخالف پُرامن عوامی مارچ کے دوران نجی ٹی وی چینل کے ڈرون کا آصفہ بھٹو سے ٹکرانا ایک ’سوچا سمجھا حملہ‘ تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور پاکستان کی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے آصفہ بھٹو پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

’آصفہ بھٹو پر سوچا سمجھا حملہ تھا‘

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے جمہوری حق کے تحت پرامن عوامی مارچ کیا لیکن اس دوران ان پر، ان کے خاندان پر اور جماعت پر حملے کیے گئے جن پر انھوں نے انتہائی صبر و تحمل سے مظاہرہ کیا۔

اُن کا کہنا تھا اس مارچ کے دوران دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک واقعہ ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری پر ڈرون سے حملے کا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جیسے ہی ان کا عوامی مارچ جنوبی پنجاب سے اپنا سفر مکمل کر کے وسطی پنجاب کی حدود میں داخل ہوا اس وقت ایک نجی ٹی وی کے ڈرون کیمرے کا ان کی بہن آصفہ بھٹو سے ٹکرانے کا واقعہ پیش آیا ’جو ایک سوچا سمجھا حملہ تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اس واقعے کا ہر زاویے سے تجزیہ کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ’ڈرون ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے ساتھ ساتھ رکھا گیا تھا اور اسے ہماری جانب بڑھایا گیا اور میری بہن کے ساتھ ٹکرایا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ میرے والد اور میرے خاندان کے لیے پیغام تھا کہ آپ جمہوریت بحال کروانے کے لیے نکلے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ آصفہ بھٹو سے ڈرون ٹکرانے کے معاملے پر میں موجودہ حکومت پر بالکل یقین نہیں رکھتا اس لیے میں فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے درخواست کروں گا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے اور رپورٹ مرتب کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر ہماری جماعت خود بھی بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کروائے گی اور اس کی بنا پر آگے کا لائحہ عمل طے ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھوں نے اس معاملے پر بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ جمہوریت اور میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر اس وقت میں ردعمل میں کوئی بات کہتا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو روکنا میرے اختیار سے باہر ہو جاتا۔‘

’میرے والد کو دھمکی دینا ناقابل برداشت ہے‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے جلسہ عام کے دوران میرے والد اور سابق صدر آصف زرداری کو ’بندوق کے نشانے‘ کی دھمکی دی گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ اب اس ملک کی خاطر، جمہوریت کی بحالی کی خاطر ہمارے خاندان اور جماعت کے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور میری والدہ بے نظیر بھٹو نے قربانی دی ہے لیکن بس اب بہت ہو گیا، اب برداشت نہیں ہو گا۔

انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سمیت جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں بچہ ہوں تو میں واضح کر دوں میں بچہ نہیں رہا، جو کوئی شخص بھی یا قوت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ڈر جائیں گے، ہم پیچھے ہٹ جائیں گے۔ تو سمجھ لیں، جان لیں ہمارے میں قربانی دینے والوں کا خون ہیں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

انھوں نے وزیر اعظم کو سخت لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جان لیں میں جو آپ کے ساتھ کروں گا وہ آپ اور آپ کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ اگر اب میرے خاندان کے ایک بھی فرد کو کچھ ہوا تو وہ ردعمل آئے گا جو اب تک اس ملک نے نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ دیکھنا چاہتے ہوں۔‘

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے رواں ہفتے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد سے اگلے ہی روز وزیر اعظم بدھ کو ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے ہیں تاکہ اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے ان کی حمایت یقینی بنائی جا سکے۔

سیاسی سطح پر اس گرما گرمی کے ماحول میں کراچی کے گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی تقریر کافی جارحانہ تھی جس میں انھوں نے اپوزیشن رہنماؤں بشمول سابق صدر آصف زرداری، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بطور خاص شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ‘اب میرے ہاتھوں سے زنجیر کُھل جائیں گی اور ان کو عوام کی مدد سے جیل پہنچایا جائے گا۔’

انھوں نے وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو کل بندوق استعمال کرنے کی بات کر رہے تھے، ہم نے آج تک بندوق استعمال نہیں کی مگر ہم اسے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ’میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پرامن آدمی ہوں اور زندگی بھر پرامن ہی رہوں گا۔‘

انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کریں ہمارے ساتھ، سیاست کرنا ہمارا اور آپ کا حق ہے۔ آپ ہمیں زندگی و موت کی دھمکی دیں گے تو اس کے نتائج خود برداشت کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’موت کی دھمکی دینا کوئی مذاق نہیں ہے ہم 2022 میں جی رہے ہیں۔ سیاست کرنا، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا حق ہے۔ ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا۔‘

’آپ کی یہ حرکتیں حکومت گرنے کی پریشانی میں ہیں۔ میں نے عوامی مارچ میں بھی کہا تھا کہ اب انھیں حکومت گرنے کی پریشانی ہے اور یہ زیادہ گالیاں دیں گے۔ مگر اب آپ کا جھوٹ نہیں چلے گا۔‘

وزیراعظم پر سخت تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے آپ کا ہدف تھا۔ عمران خان نے ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے تو آج ہی کر لیں، انھیں کل ہمارے خلاف انتقامی کارروائی کا موقع نہیں ملے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کل ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آپ کو گھر بھیجیں گے، پھر صاف شفاف الیکشن کے ذریعے ایک منتخب حکومت آئے گی۔‘

بلاول بھٹو نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خاتون اول کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ’میں نے کبھی خاتون اول کے خلاف غلط زبان استعمال نہیں کی۔’

ان کا کہنا تھا عمران خان کے خلاف کرپشن کے خوفناک کیسز بننے والے ہیں اور وہ اپنے خلاف بننے والے مقدمات سے بچنے کے لیے دعا کروائیں۔

بلاول نے یہ الزام عائد کیا کہ ’یہ باتیں بھی کی جاتی ہیں کہ پنجاب میں کوئی تقرر و تبادلہ نہیں ہوتا جب تک کہ رشوت نہیں دی جاتی، خاتون اول کے خلاف کرپشن کے الزامات کے خلاف آپ کیا کہیں گے۔‘

’مولانا فضل الرحمان کو گالی دینے والے آپ ہوتے کون ہو؟‘

گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے خلاف انتہائی غلط زبان استعمال کی۔‘

انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کون ہوتے ہو کہ مولانا فضل الرحمٰن کو گالی دو، ان کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرو۔‘ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو ملک کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مفتی محمود کون ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گالی دینا ہمیں بھی آتی ہے مگر ہم جمہوری انداز میں اس کا جواب دینا چاہتے ہیں۔

انھوں نے وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان (عمران خان ) کا پتا نہیں کہ وہ کون ہیں مگر میں محترمہ بینظیر بھٹو کا بیٹا ہوں، ہم جمہوری انداز میں جواب دیں گے، ہم پر اعتماد ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان پر اب بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ اس پارلیمان سے سنہ 2018 میں جو غلطی کروائی گئی تھی اب جلد ہی پارلیمان اس غلطی کو درست کرے گی اور جتنی جلدی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا ہے ویسی ہی پاکستان کی پارلیمان اپنے پر لگے داغ کو صاف کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں