اسلام آباد پولیس کا پارلیمنٹ لاجز میں انصار الاسلام کیخلاف آپریشن، صلاح الدین ایوبی سمیت 18 گرفتار

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے جمعرات کو حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے کارکنان کے خلاف پارلیمنٹ لاجز میں کارروائی کی ہے۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو یو آئی ایف کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین ایوبی سمیت 18 افراد کو تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق انصار الاسلام کے کارکنان جمعرات کی صبح سے پارلیمنٹ لاجز میں پھر رہے تھے اور وہاں ان کی موجودگی کا ذکر سوشل میڈیا پر بھی کیا جا رہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز کی سکیورٹی کی ذمہ داری سپیکر قومی اسمبلی پر عائد ہوتی ہے اور اس آپریشن کا حکم ان کی طرف سے دیا گیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق اس آپریشن کے دوران اپوزیشن رہنما خواجہ سعد رفیق اور کامران مرتضی زخمی ہوئے ہیں۔

تاہم اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ انصار الاسلام فورس کے کارکنان زبردستی پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوئے جس پر نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس نے پہلے ڈی چوک پر قائم ناکہ انچارج، پارلیمنٹ لاجز کے انسپکٹر انچارج اور لائن آفیسر کو معطل کر دیا اور پھر آپریشن کا حکم دیا۔

مولانا کی کارکنان کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارلیمنٹ لاجز سے پولیس فورس کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹوئٹر پر پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ’ارکان پارلیمان کی رہائش گاہوں پر دھاوا غنڈہ گردی ہے، ارکان پارلیمنٹ پر پولیس تشدد، گرفتاری اور بدسلوکی انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ ’پولیس کے ذریعے ارکان پارلیمان کا محاصرہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران نیازی کی ہار کا ثبوت ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی پرائیویسی، آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس کا لاجز میں جانا آمریت اور فسطائیت ہے۔‘

’ارکان پارلیمان کو کوئی گزند پہنچا تو ذمہ دار عمران نیازی اور ان کی حکومت ہوگی۔‘

مولانا فضل الرحمان نے اپنی جماعت کے کارکنان کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت دی ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں اپنی گرفتاری پیش کرتا ہوں۔۔۔ ہم آپ سے لڑیں گے، میدان میں لڑیں گے۔ جو کارکنان نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے اپنے شہروں میں سڑکیں بلاک کریں۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ یہ سپیکر قومی اسمبلی کی ناکامی ہے کہ وہ پارلیمنٹ لاجز کی حفاظت نہیں کر سکے۔

ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے ’پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کی چڑھائی’ کی مذمت کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وزیراعظم عمران نیازی اراکین پارلیمنٹ کو خوفزدہ نہیں کر سکتے۔

’پولیس اور انتظامیہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کے غیر قانونی احکامات پر عمل نہ کرے اور ایسی ہمت تو آمر پرویز مشرف بھی نہیں کر سکے۔ نیازی نے خود کو بے نقاب کر دیا ہے۔‘

انصار الاسلام کیا ہے؟

اکتوبر 2019 کے دوران وفاقی حکومت نے تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد انتظامیہ کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی تھی۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا وفاقی حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ انصار الاسلام ‘ایک فوجی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے’ جو کہ آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم ملک کے امن اور سلامتی کے لیے حقیقی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی۔

‘جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔ یہ جمعیت کے ماتحت اور اس کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔’

رضاکاروں کی وردی کا رنگ خاکی ہوتا ہے جس کی قمیض پر دو جیبیں لگی ہوتی ہیں، گرم کپڑے کی خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہوتا ہے جبکہ پیر میں سیاہ رنگ کا بند جوتا۔ بیج پر کسی بھی رضاکار کا عہدہ اور حلقہ درج ہوتا ہے۔ اجتماعات میں فرائض سے غفلت برتنے پر سالار کسی بھی رضاکار کو معطل کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انصار الاسلام کا کام جمعیت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جلسے، جلسوں اور کانفرنسوں میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینا ہے۔ ‘جلسہ بڑا ہو گا تو انصار الاسلام کے رضاکار بھی زیادہ ہوں گے اور اگر چھوٹا تو کم۔’

مولانا عبدالغفور حیدری نے بتایا کہ ضلعی سطح پر ہونے والے جلسوں میں 100 سے زائد رضاکار نہیں ہوتے، صوبائی سطح پر ہونے والے جلسے میں 500 سے ایک ہزار اور ملک گیر سطح پر ہونے والے جلسوں میں رضاکاروں کی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں ہونے والی جمعیت کی تمام بڑی کانفرنسوں اور جلوسوں کی سکیورٹی اور انتظام کی ذمہ داری انصار الاسلام کی ہی تھی۔ ‘رضاکاروں کے بنیادی کاموں میں سے ایک شرپسندوں پر نظر رکھنا بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے ہزاروں اور لاکھوں کے اجتماعات ہوئے مگر آج تک کسی دکان یا مکان کا شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔’

انھوں نے کہا کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری حکومت کی غیر ضروری گھبراہٹ کی غماز ہے اور اگر انصار الاسلام کے خلاف قدم اٹھایا گیا تو وفاقی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کا آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے تحت انصار الاسلام ایک قانونی تنظیم ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے لکھی گئی سمری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انصار الاسلام میں شامل افراد کی تعداد ملک بھر میں 80 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں