پتوکی: شادی ہال میں محنت کش کی ہلاکت، 12 ملزمان گرفتار

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل پتوکی میں ایک شادی ہال میں باراتیوں کے مبینہ تشدد سے محنت کش محمد اشرف کی ہلاکت کے واقعے میں مقدمہ درج کر کے 12 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

ڈی پی او قصور کے مطابق پولیس کی ٹیموں نے رات گئے کنگن پور، پتوکی اور سرائے مغل میں کارروائی کرکے ان افراد کو حراست میں لیا ہے۔

واضح رہے کہ پیر کو پتوکی کے ایک شادی ہال میں ایک پاپڑ بیچنے والے کے ساتھ باراتیوں کے تنازعے پر جھگڑا ہوا تو پھر وہاں موجود باراتیوں نے مبینہ طور پر انھیں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

اس واقعے کا مقدمہ محمد اشرف کے بہنوئی کی درخواست پر درج کیا گیا ہے اور مدعی کا کہنا ہے کہ وہ الجنت شادی ہال سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ان کے برادرِ نسبتی کو شادی ہال کے احاطے میں چند مقامی لوگ مار رہے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق مذکورہ افراد محمد اشرف کو مکے اور ٹھوکریں مار رہے تھے اور جب محمد اشرف کو چھڑایا گیا تو وہ بہت زخمی تھے اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی وفات پا گئے۔

پرویز کا کہنا تھا کہ محمد اشرف ایک انتہائی غریب شخص تھا اور پاپڑ فروخت کر کے گزر بسر کرتا تھا جبکہ سیزن میں وہ پھلوں کا کام بھی کرتا تھا۔ ان کے مطابق اشرف غیر شادی شدہ تھا اور گاؤں میں اپنے ایک دوست کے پاس رہتا تھا۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب نے رات کو اس واقعہ کا نوٹس لیا تھا۔ ان کے مطابق ڈی پی او قصور واقعے کی تفتیش اپنی نگرانی میں کر رہے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق مزید افراد کو شامل تفتیش کرنے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور دیگر شواہد کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔

پولیس کے مطابق ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ میں ڈاکٹرز نے متوفی کے جسم پر تشدد کی تصدیق نہیں کی تاہم واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق جائے واردات سے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، حتمی رپورٹ آنے کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے۔

تھانہ سٹی پتوکی کے تفتیشی افسر آصف علی نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ ’ابھی تک جو تفتیش ہوئی ہے اور جو ابتدائی پوسٹ مارٹم ملی ہے۔ اس میں ہلاک ہونے والے شخص پر تشدد کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بارات کے دوران ممکنہ طور پر جب روایتی طور پر پیسے وغیرہ پھینکے گئے تو اس موقع پر مقتول بھی پیسے حاصل کرنے والوں میں شامل تھا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر وہ گر کیا، کس وجہ سے گرا اس بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ وہاں پر گرا اور وہاں ہی دم توڑ گیا‘۔

سوشل میڈیا پر ردعمل: پتوکی میں ہونے والا واقعہ،‘ہمارا ضمیر نہیں مرا، درحقیقت ہم مر چکے ہیں‘

اس محنت کش کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں شادی ہال میں اشرف کی لاش کی موجودگی میں بارات کے شرکا کو کھانا کھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

تفتیشی افسر آصف علی کے مطابق ’جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ لوگ وہاں پر کھانا کھانے میں مصروف رہے اور کسی نے بھی محمد اشرف کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ مختلف وڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ کسی نے یہ سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ایک بندہ کسی مدد کا منتظر ہے یا اس دنیا میں نہیں رہا ہے‘۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ معاشرے میں کس قدر بے حسی بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف لاش پڑی ہوئی ہے اور دوسری جانب لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’پتوکی کے واقعہ کو صرف اس طرح نہ لیجیے کہ وہاں کچھ درندوں نے ایک انسان کی جا ن لے لی اس واقعہ نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہمارے اندر ایسے حیوان بھی بستے ہیں جو کسی کی لاش بچھا کر ایسی بے حسی اور بے شرمی سے کھانا کھا لیتے ہیں۔‘

عدنان رضا خان نامی صارف نے لکھا کہ ’پتوکی میں ہونے والا واقعہ _ ہمارا ضمیر نہیں مرا در حقیقت ہم مر چکے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں