وفاقی وزیر علی زیدی کی لاپتہ افراد سے متعلق ٹویٹ پر سخت ردعمل کے بعد معافی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ بی بی سی) ’جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا غم کوئی لطیفہ نہیں۔۔۔ مظلوم کی مظلومیت کا مذاق اُڑانے والے خود ایک دن مذاق بن جائیں گے۔‘

یہ کہنا ہے سماجی کارکن جبران ناصر کا جو وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی کے ایک ٹویٹ پر ردعمل دے رہے تھے۔ علی زیدی نے اس ٹویٹ میں مسلم لیگ ن کے نائب صدور مریم نواز اور حمزہ شہباز کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ‘لاپتہ افراد کے اہل خانہ پھر سڑکوں پر موجود ہیں۔’

اگرچہ وفاقی وزیر نے اپنی اس طنزیہ ٹویٹ پر معافی مانگ لی ہے تاہم سوشل میڈیا پر اس کی مذمت جاری ہے۔

حتیٰ کہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی کہا ہے کہ ’یہ مذاق کا موضوع ہرگز نہیں۔‘

خیال رہے کہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے اور اس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر لفظوں کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔

آج حکمراں جماعت تحریک انصاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جلسہ کرنے جا رہی ہے جہاں وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو ’سرپرائز‘ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ ان کے مشیروں نے 10 لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ کیا ہے۔

علی حیدر کی لاپتہ افراد سے متعلق طنزیہ ٹویٹ پر معافی

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی کو سنیچر کی شب اپنے ایک ٹویٹ پر معذرت کرنا پڑی۔ اس میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی مہنگائی مکاؤ مارچ کے موقع پر لاہور سے اسلام آباد روانگی کی تصویر شیئر کی گئی تھی اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا حوالہ دیا گیا تھا۔

بظاہر یہ نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کے متعدد افراد کے ملک سے باہر ہونے پر طنز کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک میں شامل لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے تھا لیکن اسے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں سے دوچار افراد کے خلاف غیر حساس رویے سے تعبیر کیا۔

تاہم انھوں نے اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ‘جبری گمشدگیوں سے متاثرہ کسی فرد کو اگر میری پوسٹ سے تکلیف پہنچی ہے تو میں معافی مانگتا ہوں۔’

اس کے آگے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’پی ٹی آئی کے دور حکومت میں غیر قانونی حراست کا کوئی معاملہ پیش نہیں آیا ہے۔ در حقیقت میں نے بذات خود سو سے زیادہ افراد کی بازیابی میں مدد کی ہے جو کہ گذشتہ حکومتوں میں لاپتہ ہوئے تھے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت نے درحقیقت اس غیر قانونی عمل کے خلاف قانون بھی بنایا ہے۔‘

‘وفاقی وزیر کو لگتا ہے لاپتہ افراد کے بے بس لواحقین کا مذاق اڑانا تفریخ ہے‘

مگر معافی کے باوجود ان کے ٹویٹ پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس ٹویٹ کو ناپسند کیا تاہم بعض لوگوں نے اسے مذاق ہی سمجھا۔ وفاقی وزیر کے رویے پر ردعمل دیتے ہوئے انسانی حقوق کی علمبردار اور پروفیسر ماروی سرمد نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ: ’آپ کے خیال میں کیا یہ فنی (مزاحیہ) ہے؟‘

سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے علی حیدر زیدی کے ٹویٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا: ’حکمران جماعت فطرتاً جگت باز صحیح، مگر جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا غم کوئی لطیفہ نہیں۔ یہ ان ماؤں بیویوں بہنوں اور بیٹیوں کی توہین ہے جو سالوں اپنے لاپتہ پیاروں کی تصویر اٹھائے ریاست سے سوال پوچھنے کی جرات کرتی ہیں۔ مظلوم کی مظلومیت کا مذاق اڑانے والے خود ایک دن مذاق بن جائیں گے۔‘

جبکہ صحافی شیراز حسن نے لکھا کہ ‘ایک وفاقی وزیر گمشدہ افراد کے اہل خانہ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ یہ مذاق نہیں ہے۔‘

دوسری جانب حقوق نسواں کی علمبردار ندا کرمانی نے لکھا ’مزاح’ کتنا زہریلا ہو سکتا ہے یہ اس کی بدترین مثال ہے۔‘

اسی طرح انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے لکھا کہ ’جبری گمشدگیوں کا معاملہ مذاق کی بات نہیں ہے۔‘

سعیدہ فاطمہ نے لکھا کہ ’وفاقی وزیر کو لگتا ہے لاپتہ افراد کے بے بس لواحقین کا مذاق اڑانا تفریح ہے۔‘

دوسری طرف بعض صارفین نے علی زیدی کا دفاع بھی کیا ہے۔

جیسے سہیل اقبال شیخ نے کہا کہ طنزیہ ٹویٹ کی بنیاد پر وفاقی وزیر پر تنقید سے لوگوں کا عمران خان کے خلاف تعصب ظاہر ہوتا ہے۔ انیس راحیل نامی ایک صارف نے لکھا: ‘وہ مظلوم کی مظلومیت کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور آپ مظلوم کی مظلومیت بیچ رہے ہیں۔ آپ کا دانا پانی ہی مظلومیت کی خرید و فروخت سے چل رہا ہے۔ جس کے پلے کچھ نہیں، اس نے مسنگ پرسنز کا نام کیا، اسے کیش کیا۔‘

بعض صارفین نے علی زیدی کے ماضی کے ٹویٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا پہلے بھی کر چکے ہیں۔

اس سے قبل سنہ 2019 میں علی حیدر زیدی نے کشمیر کی ایک فیک ویڈیو شیئر کر دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے لاٹھی چارج کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔

انھوں نے اس ویڈیو کے ساتھ لکھا تھا: ‘دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ نریندر مودی کی حکومت کشمیر میں کیا کر رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو انڈیا پر تجارتی پابندی عائد کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘

لیکن بعد میں تحقیق سے پتا چلا کہ یہ کشمیر کی نہیں بلکہ انڈین ریاست ہریانہ کی ویڈیو تھی۔

جبری گمشدگیوں پر حکومتی اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی اور انکوائری کے لیے مارچ 2011 میں بنائے گئے وفاقی کمیشن کے اگست 2021 تک کے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ ہزار ایک سو بائیس جبری گمشدگی کے کیسز موصول ہوئے۔

جن میں سے 5853 کیسز نمٹائے جا چکے ہیں۔ اس وقت بھی دو ہزار دو سو انہتر کے لگ بھگ کیسز کمیشن میں موجود ہیں۔

ہیومن رایٹس کمیشن آف پاکستان کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر سمجھتے ہیں کہ اب جبری گمشدگی کے کیسز کم تعداد میں رپورٹ ہو رہے ہیں، اٌس کی بڑی وجہ لوگوں میں خوف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں