اسلام آباد (ڈیلی اردو) برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے بیٹے اور ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مابین یمن میں جنگ سمیت دیگر اہم مسائل پر ’شدید اختلافات‘ جنم لے چکے ہیں۔
دی گارجین’ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’دونوں اہم شخصیات کے درمیان اختلافات کی فضا ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہوئی‘۔
واضح رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی ‘سی آئی اے’ نے الزام لگایا تھا کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا‘۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’رواں برس فروری کے اواخر میں صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب 83 سالہ شاہ سلمان نے مصر کا دورہ کیا، جہاں ان کے مشیروں نے انہیں خبردار کیا کہ ’ولی عہد کے خلاف اقدامات کی صورت میں انہیں غیر معمولی خطرہ ہے‘۔
اس حوالے سے مزید انکشاف کیا گیا کہ ’سعودی عرب کے بادشاہ کے مصاحبین نے انہیں ممکنہ طور پر خطرے سے آگاہ کیا جس کے بعد وزارت داخلہ نے 30 سے زائد وفادار سیکیورٹی اہلکاروں کو مصر روانہ کر کے پہلے سے موجود سیکیورٹی اہلکاروں کو واپس بلا لیا‘۔
ذرائع کے مطابق ’سیکیورٹی اہلکاروں کی فوری تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہ کی سیکیورٹی کے لیے تعینات بعض افسران شہزادہ محمد بن سلمان کے انتہائی وفادار تھے‘۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’شاہ سلمان کے مشیروں نے مصر کی جانب سے فراہم کردہ سیکیورٹی اہلکاروں کی خدمات بھی واپس کردی تھی‘۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ باپ اور بیٹے کے مابین کشیدگی کو اس طرح بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ شاہ سلمان کی وطن واپسی پر استقبال کے لیے افراد کی فہرست میں شہزادہ محمد بن سلمان کا نام شامل نہیں تھا۔
واضح رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے، جو بادشاہ کی عدم موجودگی میں ’نائب بادشاہ‘ کے عہدے پر فائز ہوئے، والد کی غیر موجودگی میں دو اہم فیصلے کیے جس میں سے ایک امریکا کے لیے ریما بنت بندر السعود کو سعودیہ کا سفیر مقرر کیا اور اپنے حقیقی بھائی خالد بن سلمان کو نائب وزیر دفاع کا عہدہ تفویض کیا۔
اس حوالے سے واشنگٹن میں موجود سعودی سفارتخانے نے موقف دیا کہ ’شہزادہ محمد بن سلمان نے بطور نائب بادشاہ اپنے اختیارات کا استعمال کیا جو انہیں شاہ سلمان نے تفویض کیا اور اس ضمن میں کوئی بھی خیال محض بے بنیاد ہے‘۔سعودی حکام نے مصر میں بادشاہ کی سیکیورٹی تفصیلات سے متعلق تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
رپورٹ کے مطابق مصری وزارت خارجہ سمیت سعودی عرب میں سینٹر فار انٹرنیشنل کمیونیکشن نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔