ڈیرہ اسماعیل خان میں توہین مذہب کے مبینہ الزام پر طالبات نے مدرسے کی معلمہ کو ذبح کردیا

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے مطابق ایک معلمہ کو مدرسے کے دروازے کے باہر مبینہ طور پر تین خواتین نے اس وقت قتل کر دیا جب مقتولہ پڑھانے کے لیے پہنچی تھیں۔

یہ مبینہ واقعہ منگل کی صبح ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافاتتی علاقے انجم آباد میں پیش آیا جس کے بعد پولیس نے تین خواتین ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ مقتولہ کے چچا کی مدعیت میں درج مقدمے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ مبینہ واقعہ منگل کی صبح تقریباً سات بجے پیش آیا۔

مقتولہ کے چچا نے پولیس کو بیان میں کہا ہے کہ جس مدرسے میں ان کی بھیتجی پڑھاتی تھیں وہاں کے مہتمم نے صبح ان کے گھر پر فون کیا اور بتایا کہ مدرسے کے گیٹ پر ان کی بھتیجی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد وہ شدید زخمی حالت میں گلی میں ہی پڑی ہیں۔

’مدرسے پہنچا تو بھتیجی کا گلہ کٹا ہوا تھا‘

چچا نے پولیس کو بیان میں کہا ہے کہ ‘اس اطلاع پر میں فوراً مدرسے پہنچا تو بھتیجی کو مدرسے کے گیٹ کے ساتھ خون میں لت پت پایا۔ اس کا گلہ کٹا ہوا تھا اور اس کی موت ہو چکی تھی۔’

مقتولہ کے چچا کے مطابق ان کو معلوم ہوا کہ حسب معمول جب ان کی بھتیجی رکشے پر مدرسے پہنچی تو وہاں پہلے سے ہی مدرسے کے یونیفارم میں چند خواتین موجود تھیں جنھوں نے مبینہ طور پر تیز دھار آلے سے حملہ کیا اور ان کی بھتیجی کا گلہ کاٹ دیا۔ ان کے مطابق اس واقعے کے عینی شاہدین میں محلے والے بھی شامل تھے۔

پولیس کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ کے چچا نے کہا ہے کہ ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کی بھتیجی اور ملزمان میں عداوت کس بات پر تھی۔

پولیس اہلکاروں نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ مقتولہ کے والد اور بھائی بیرون ملک رہتے ہیں اسی لیے ان کے چچا نے پولیس کو بیان دیا ہے۔

مقتولہ جس مدرسے میں تعلیم دے رہی تھیں اس مدرسے کے مہتمم مولانا شفیع اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ مقتولہ عرصہ دو سال سے ان کے مدرسے سے وابستہ تھیں۔ مولانا شفیع اللہ کا دعویٰ ہے کہ ملزمان ایک دوسرے مدرسے کی طالبات اور معلمہ تھیں۔

پولیس کے مطابق ملزم خواتین میں دو بہنیں اور ایک ان کی کزن ہے جن میں سے ایک خود بھی معلمہ ہے۔

قتل کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش

پولیس کے مطابق بظاہر اس قتل کی وجہ توہین مذہب بتائی جا رہی ہے لیکن انھیں اب تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس میں توہین مذہب کا کوئی عنصر سامنے آیا ہو۔

مدرسہ مہتمم مولانا شفیع اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کسی قسم کے توہین مذہب کے واقعے کی تردید کی ہے۔

پولیس کی جانب سے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم کا انتظام کیا جا رہا ہے جب کہ مقدمے کے اندراج کے بعد تفتیش کا عمل بھی جاری ہے۔

ڈی پی او کی پریس کانفرنس

ڈی پی او نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ تین خواتین اساتذہ کو ایک سابق ساتھی استاد کو مبینہ توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے.

ڈی پی او ڈیرہ اسماعیل خان نجم الحسنین کا کہنا تھا کہ مشتبہ ملزمان کی عمریں بالترتیب 17، 21 اور 24 سال ہیں، انہوں نے مبینہ طور پر “مذہبی معاملات پر اختلاف رائے ” اور مبینہ توہین مذہب کے الزامات پر 21 سالہ لڑکی کو قتل کیا۔

ڈی پی او نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ گرفتار اساتذہ نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں رات کو خواب میں رسول اللہﷺ نے آ کر حکم دیا کہ اس عورت نے میری شان میں گستاخی کی ہے جاؤ جا کر اس کو ذبح کر دو۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ مقتولہ خاتون معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی پیروکار تھی جسے ملزم خواتین پسند نہیں کرتی تھیں۔

واضح رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور اس کے قریب علاقوں میں تشدد کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ شہر میں کچھ عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک ہی روز قبل کلاچی کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار کو گھر کی دہلیز پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں