افغانستان: قندہار میں 6 صحافی کئی گھنٹے تک طالبان کی قید میں رہے

کابل (ڈیلی اردو ڈوئچے ویلے) طالبان نے پیر کے روز ،قندھار کے چھ ریڈیو صحافیوں کو کئی گھنٹے تک حراست میں رکھا ،اور موسیقی پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر انکے سٹیشنز کو مختصر وقت کے لئے بند کر دیا۔انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ،یہ اقدام ،میڈیا کے خلاف ،وسیع پکڑ دھکڑ کا ایک حصہ ہے ،جو ایک زمانے میں آزاد تھا ،لیکن اب تیزی سے اسے حصار میں لیا جا رہا ہے۔

افغان آزاد صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے قندھار میں نمائندے ،محمد یار مجروح کے مطابق ،قندھار کے اس معاملے میں ،طالبان کے خفیہ اہلکاروں نے ،ان چھ صحافیوں کو پوچھ گچھ کے بعد ان کے سٹیشن منیجرز کی اس یقین دہانی کے بعد چھوڑ دیا کہ وہ طالبان کی نئی ہدایات کے تحت ،موسیقی نشر کرنا بند کر دیں گے۔

افغان آزاد صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے قندھار میں نمائندوں نے ان کی رہائی کے لئے مذاکرات کئے۔مجروح نے یہ بھی بتایا کہ، قندھار میں کام کرنے والے ایک ساتویں صحافی میر واعظ اٹل کو ہفتے کے روز گرفتار کیا گیا تھا ،اسے بھی پیر کے روز رہا کر دیا گیا۔اٹل پر الزام تھا کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کے بارے میں ،طالبان کی پالیسیوں کو سوشل میڈیا پر بدنام کر رہا ہے

ان حراستوں نے ،قندھار میں ،ایک مربوط میڈیا کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا ۔پچھلے اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ، ملک بھر میں تفریح پر پابندی کے باوجود ،یہاں چند ریڈیو سٹیشنز رہ گئے تھے، جنہیں موسیقی سنانے کی اجازت تھی۔مجروح کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی سٹیشن کو بند نہیں کیا گیا لیکن کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حراستوں کے نتیجے میں انہیں اپنے سٹیشنز بند کرنا پڑیں گے۔

طالبان کے انٹیلیجنس عہدیداروں نے اتوار کے روز ،ریڈیو سٹیشن منیجرز سے ملاقات کی تھی اور انہیں موسیقی پر نئی پابندیوں کو بارے میں متنبہ کیا تھا ،اور جب کچھ سٹیشنز نے پیر کے روز ان احکامات کی خلاف ورزی کی، تو مقامی صحافیوں کے مطابق ،طالبان اہلکاروں نے ان پر ہلّہ بول دیا ۔مجروح کا کہنا تھا کہ آج کے بعد موسیقی نشر نہیں ہو گی۔میڈیا کی وکالت کرنے والے گروپ نے ،ان گرفتاریوں کو، افغانستان میں آزاد میڈیا پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔

ویانا میں قائم بین الاقوامی پریس انسٹیٹیوٹ کی ڈائرکٹر آف ایڈووکیسی ایمی بروئیلیٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کا میڈیا کے خلاف رویہ کسی بھی آمرانہ حکومت جیسا ہے۔بروئیلیٹ کا کہنا تھا کی یہ حکومت آزاد میڈیا اور سول سوسائیٹی کے دوسرے اداروں کو اپنے خلاف ایک بنیادی خطرہ سمجھتی ہےاور وہ قانونی اور سینسر شپ کے اقدامات کے ذریعے پریس کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور صحافیوں کو ہراساں ،کرنا اور ڈرانا دھمکانا چاہتی ہے۔

وائس آف امریکہ نے جب ایک ٹیکسٹ پیغام میں طالبان سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔

غیر ملکی میڈیا پر پابندی

اتوار کے روز ،طالبان نے مقامی نشریاتی اداروں کو حکم دیا کہ وہ وائس آف امریکہ سمیت بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے تیار کئے ہوئے نیوز پروگراموں کو نشر کرنا بند کر دیں ۔

طالبان وزارت ِ اطلاعات و ثقافت کے ایک سینئر عہدیدار نے ،طلوع نیوز کو بتایا طالبان کو بین الاقوامی نیوز پروگراموں کے مواد پر کوئی اعتراض نہیں ہےلیکن انکی خواتین میزبانوں کے لباس ،اسلام اور افغان قدروں کے خلاف ہیں اس لئے انکو بند کردیا جائے۔

طلوع نیوز جو افغانستان کا ایک مشہور نیوز چینل ہے وائس آف امریکہ سے اسکا الحاق ہے۔

تین بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے طالبان کے اس قدام کی مذمت کی ہے۔

وی او اے کی قائمقام ڈائیرکٹر یولانڈا لوپیز نے اتوار کے روز ایک بیان میں طالبان سے کہا ہے کہ وہ اس پریشان کن اور افسوسناک فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔لوپیز کا کہنا تھا کہ طالبان کی طرف سے خبروں کے مواد پر پابندیاں اس آزادیء اظہار کے خلاف ہیں جسکے افغان عوام مستحق ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے ریپبلکن رکن مائیکل میک کال کا کہنا تھا کہ طالبان کی میڈیا پر حالیہ بندش ،عام طریق کے خلاف ہے۔میک کال نے وی او اے کےلئے ایک بیان میں کہا کہ طالبان ایک بار پھر اپنا اصلی رنگ دکھا رہے ہیں اور امریکہ کو آزاد میڈیا کی حمایت جاری رکھنی چاہئے تاکہ وہ طالبان کی میڈیا پر دباؤ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مقابلہ کر سکیں۔

بین الاقوامی پریس انسٹیٹیوٹ کی ڈائرکٹر آف ایڈووکیسی ایمی بروئیلیٹ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو حراست میں لینا طالبان کی قیادت میں افغانستان میں میڈیا کی آزادی کے زوال کی ایک اور نشانی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ پریس کی آزادی کے احترام کے ابتدائی وعدوں کے بجائے ،طالبان نے اسکے بالکل الٹ کیا ہے۔طالبان حکومت نے پابند یوں والے قوانین کے ذریعے ،پریس کو کنٹرول کرنے اور آزاد میڈیا کو خاموش کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پروگراموں میں مذہبی مواد کو شامل کیا جائے اور غیر ملکی خبروں اور فلموں پر پابندی لگا رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ جبری گرفتاریاں،حراستیں ،حملے اور ڈرانے دھمکانے اور تشدد کے تمام حربے استعمال کئے جارہے ہیں تاکہ کوئی بول نہ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں