بھارتی ریاست اترپردیش میں مسلمان نوجوان کا قتل

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارتی ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں کشی نگر کے علاقے میں بی جے پی کے لیے مہم چلانے اور ووٹ دینے پر بابر علی نامی ایک نوجوان کے قتل کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بابر کی بیوی کا الزام ہے کہ ان کے شوہر کو گاؤں کے کچھ مسلمانوں نے چھت سے نیچے پھینک دیا کیونکہ بابر نے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا اور پارٹی امیدوار کے لیے مہم چلائی تھی۔

کشی نگر کے پولیس سٹیشن رام کولا میں 21 مارچ کو درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ 20 مارچ کی شام ساڑھے چھ بجے کے قریب کاٹھ گڑھی گاؤں میں پیش آیا۔

بابر علی کی اہلیہ کے مطابق ’بابر نے ودھان سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدوار پنچنن پاٹھک کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ پنچنن پاٹھک کی جیت پر بابر نے ڈھیروں مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔ یہ ہمارے لوگوں کو اچھا نہیں لگا اور وہ اس کا بدلہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’20 مارچ کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عظیم اللہ، سلمیٰ، طاہر اور عارف لاٹھیاں اور ڈنڈے لے کر آئے اور بابر پر حملہ کر دیا۔ بابر کسی طرح بھاگ کر گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ حملہ آوروں نے گھر میں گھس کر پتھراؤ شروع کر دیا اور میرے شوہر کو بری طرح مارا پیٹا اور چھت سے نیچے پھینک دیا۔‘

’بابر کو شدید چوٹیں آئیں۔ انھیں رامکولہ سی ایچ سی لے جایا گیا جہاں سے انھیں گورکھپور کے میڈیکل کالج منتقل کیا گیا اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لکھنؤ کے پی جی آئی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔‘

بابر 25 مارچ کو لکھنؤ میں علاج کے دوران ہلاک ہوگئے۔

پولیس نے ملزم عظیم اللہ اور ان کے تین بیٹوں عارف، سلمیٰ اور توحید کو گرفتار کر کے انھیں تکلیف پہنچانے، اکسانے، امن میں خلل ڈالنے، بغیر اجازت گھر میں گھسنے اور قتل کی کوشش کرنے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

بی بی سی نے پولیس سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ آیا بابر کی موت کے بعد ملزمان کے خلاف درج دفعات تبدیل کی جائیں گی لیکن ضلع کے ڈی آئی جی اور ایس پی سے فون پر رابطہ نہیں ہو سکا۔

بابر کے بھائی کیا الزام عائد کرتے ہیں؟

بابر کے بھائی چندے عالم ممبئی میں کام کرتے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ بابر کو قتل کرنے کی سازش کی گئی تھی۔

پولیس ایف آئی آر میں درج الزامات دہراتے ہوئے انھوں نے کشی نگر میں میڈیا کو بتایا کہ’یہ ہمارا حق ہے کہ میں جہاں چاہوں ووٹ دوں، جہاں ہمیں فائدہ ہوگا ہم وہاں ووٹ دیں گے۔ پھر آپ ہم پر دباؤ کیوں ڈال رہے ہیں۔ انھوں نے میرے بھائی کے خلاف سازش کی۔‘

چندے عالم کا کہنا ہے کہ پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کا ایک واقعہ ڈیڑھ ماہ قبل بھی پیش آیا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ اس کے بعد ملزمان بابر کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک دن پورے محلے کے لوگوں نے پتھر برسائے اور پورے گھر میں توڑ پھوڑ کیا۔ اس کے بعد وہ اسے مارنے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ بی جے پی کی مہم کا حصہ تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ ناراض ہو گئے اور اسے کئی بار جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل چکی تھیں۔‘

چندے عالم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بابر نے اس سلسلے میں انتظامیہ سے مدد لینے کی کوشش کی تھی لیکن اسے کوئی مدد نہیں ملی۔

مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے چندے عالم نے کہا کہ ’ہمارا بھائی بہت بھاگا دوڑا، اپنی جان کی بھیک مانگی، ایس پی آفس گیا۔ پولیس سٹیشن رامکولہ، پھر ڈی ایم صاحب کے پاس۔۔۔ ہر جگہ گیا لیکن کسی نے اس کی نہیں سنی اور آخر کار ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔‘

چندے عالم 20 مارچ کے واقعے کے بارے میں کہتے ہیں کہ بابر جیسے ہی اپنی دکان سے گھر آیا تو منصوبہ بندی کے مطابق اس پر حملہ کیا گیا، پتھراؤ کیا گیا اور چھت سے پھینکا گیا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔

چندے عالم کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ اس واقعے کے بعد اب انھیں اور ان کے خاندان کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

کاٹھ گڑھی گاؤں کے سربراہ کا کیا کہنا ہے؟

میڈیا سے بات کرتے ہوئے بابر کی اہلیہ نے کاٹھ گڑھی گاؤں کے سربراہ ونود چورسیا پر بھی الزام لگایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ونود پردھان نے کہا کہ اگر وہ سائیکل کو ووٹ نہیں دیتے تو اسے مار ڈالو، میں دس لاکھ خرچ کرنے کو تیار ہوں۔‘

بی بی سی نے جب اس الزام کے بارے میں ونود چورسیا سے بات کی تو انھوں نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ بابر کی اہلیہ ان پر یہ الزامات صدر کا انتخاب ہارنے والے روہت سنگھ کے کہنے پر عائد کر رہی ہیں۔

ونود چورسیا کہتے ہیں کہ ’بابر نے بی جے پی کو ووٹ دیا اور ایسا نہیں کہ انھوں نے نہیں دیا۔ انھوں نے انتخابی مہم بھی چلائی۔‘

ونود چورسیا کے مطابق فریقین کے درمیان زمین اور نالے کا پرانا تنازعہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔

ونود چورسیا کا کہنا ہے کہ بابر مرغی ذبخ کر کے فروخت کرتا تھا۔ ان کے مطابق 20 مارچ کو معاملہ اس وقت بگڑ گیا جب بابر نے سلمیٰ کے گھر کی دہلیز پر ایک مرغی کاٹ کر اس کا خون اور فضلہ پھینک دیا، جس پر جھگڑا ہوا۔ اس پر مشتعل ہو کر بابر نے سلمیٰ پر حملہ کر دیا تو وہاں موجود عارف اور طاہر نے بھی بابر کو مارنا شروع کر دیا۔

ونود کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد بابر چھت پر چلا گیا اور یہ ابھی تک واضح نہیں کہ وہ چھت سے کیسے گرا۔‘

ونود چورسیا کیس کے چوتھے ملزم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’عظیم اللہ اس وقت وہاں نہیں تھا‘ لیکن پردھان ونود چورسیا بابر کے بی جے پی کو ووٹ دینے اور اس کے لیے مہم چلانے کو ان کے قتل کی وجہ نہیں سمجھتے۔

ونود چورسیا کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود بی جے پی کی حمایت کی تھی۔

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

بابر کے قتل کے معاملے پر گرفتار ہونے والے دو ملزمان کے بیانات میں بھی فروری میں نالے کے تنازع کی وجہ سے فریقین کے درمیان لڑائی کا ذکر موجود ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

اس معاملے میں تحقیقات سے متعلق تازہ ترین بیان گورکھپور کے ڈی آئی جی جے رویندر گوڑ کا ہے۔

پیر کی رات وہ بابر کے اہلخانہ سے ملنے آئے اور میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ لواحقین نے پولیس کو چار گرفتار ملزمان کے علاوہ دیگر لوگوں کے کردار سے بھی آگاہ کیا ہے اور پولیس اس بارے میں تفتیش کرے گی جبکہ بابر کے خاندان کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

تو پھر بابر کو مارنے کی وجہ کیا تھی؟ نالے سے متعلق تنازعہ یا ان کا بی جے پی کو ووٹ دینا؟

اس سوال کے جواب میں ڈی آئی جی جے رویندر گوڑ نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہم ایف آئی آر میں موجود ہر چیز پر بات کر رہے ہیں۔‘

میڈیا نے ڈی آئی جی سے یہ سوال بھی کیا کہ لواحقین کا الزام ہے کہ 20 سے 27 مارچ تک پولیس ان کی مدد کے لیے ان کے گھر نہیں آئی، جس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ ’ہم اس کی تحقیقات کریں گے اور اگر کسی کی طرف سے کوئی غفلت ہوئی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یوگی حکومت کی جانب سے بابر کے خاندان کی مدد

بابر کی موت کے بعد کشی نگر سے بی جے پی کے رکن پارلیمان پنچنن پاٹھک بھی بابر کے اہلخانہ سے ملنے آئے۔ انھوں نے بابر کے جنازے کو کندھا بھی دیا۔

پنچنن پاٹھک نے گاؤں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو بھی اس میں ملوث ہے اسے رہا نہیں کیا جائے گا۔‘

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق وزیر دیاشنکر سنگھ نے کہا ہے کہ ’کشی نگر واقعہ کے ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یوگی حکومت نے ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم کی ہے۔ معاملے کی جانچ کی جائے گی۔‘

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بابر کے اہلخانہ کے لیے دو لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے اور پولیس سے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے کو بھی کہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں