افغانستان میں طالبان نے اپنا اصل روپ دکھانا شروع کر دیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان کی جانب سے وائس آف امریکہ اور دیگر غیر ملکی میڈیا اداروں کی نشریات روکنے کا حکم جاری کرنے کے بعد ملک میں آزادیٔ اظہار کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے ارادے اور اہداف کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور وہ افغانستان کو ایک ایسی جگہ بنانا چاہتے ہیں جہاں سے کسی کی فریاد باہر نہ سنائی دی جائے۔

طالبان کی طرف سے میڈیا اداروں کی نشریات روکنے کے حالیہ احکامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب 23 مارچ کو طالبان نے لڑکیوں کے اسکولوں کی دوبارہ بندش کا اعلان کیا تھا۔

افغانستان میں گزشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد متعدد صحافیوں نے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی کیوں کہ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ طالبان کے دورِ حکومت میں وہ آزاد صحافت کر سکیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے میڈیا پر حالیہ پابندیاں ان کے لیے قطعی طور پر حیران کن نہیں۔

سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ “طالبان کی میڈیا کے متعلق سوچ اور فکر انتہائی خطرناک ہے کیوں کہ جب وہ افغانستان میں چھپنے والے چھوٹے چھوٹے اخبارات اور رسائل کی کوریج کو برداشت نہیں کر سکتے تو وہ وائس آف امریکہ، بی بی سی یا جرمن ٹی وی کی نشریات کو بھلا کیسے برداشت کریں گے۔”

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کو اقتدار میں آئے سات ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور انہوں نے اپنا اصل رنگ و روپ دکھانا شروع کر دیا ہے۔

ان کے بقول طالبان کے اقدامات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی ان پر وہی سخت گیر خیالات حاوی ہیں۔

سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی میڈیا بھی افغانستان کے حالات اسی طرز میں نشر کرے جیسا کہ ان کے اپنے میڈیا ‘ریڈیو شریعت’ پر نشر کیے جاتے ہیں لیکن غیرملکی اداروں کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔

افغانستان اینڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر حجت اللہ مجددی نے طالبان کےغیر ملکی میڈیا کی بندش کے اقدام کے حوالے سے کہا کہ طالبان کو میڈیا کے خلاف جارحانہ پالیسی بنانے کے بجائے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور اداروں کے ساتھ بات چیت کر کے تمام معاملات حل کرنے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی نشریات پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس سے ملک بیرونی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ میڈیا کارکنان کو حراست میں لینا اور اداروں کی بندش نہ تو افغان عوام اور نہ ہی موجودہ نظام کے فائدے میں ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان کی حکومت کو بے روزگاری، صحت، تعلیم اوراقتصادی لحاظ سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کی نصف آبادی خوراک کی قلت سے دوچار ہے جب کہ بین الاقوامی برادری کے شدید دباؤ کے باوجود طالبان انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم، روزگار اور آزادیٔ اظہار جیسے معاملات پر تعاون کرنے کو تیار نہیں۔

سمیع یوسفزئی نے کہا کہ “طالبان ایک جنگجو گروپ ہیں نہ کہ سیاسی گروپ، جو اپنی قوم کو جواب دہ ہو۔ تو جو گروپ اپنے آپ کو قوم کے سامنے جواب دہ نہ سمجھتا ہو وہ بھلا بین الاقوامی دباؤ کو کس خاطر میں لائےگا ؟”

انہوں نے کہا کہ طالبان کو لوگوں کی زندگیوں اور معاشی حالات سے کوئی سروکار نہیں کیوں کہ یہ لوگ نہ تو کوئی الیکشن جیت کر آئے ہیں نہ ہی انہوں نے پانچ برس بعد اپنی کارگردگی کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگنے جانا ہے۔

اسکولوں کی دوبارہ بندش کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردِ عمل آیا ہے جب کہ افغانستان میں طالبات اور خواتین نے احتجاج بھی کیا ہے۔

کابل میں مقیم ایک سینئر صحافی نے عالمی میڈیا کے بعض چینلز کی بندش پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے متعددمیڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں اور ابھی جن اداروں کی نشریات کی بندش کا اعلان کیا گیا ہے وہ ادارے ہیں جن کے افغانستان میں باقائدہ دفاتر موجود نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کے خیالات میں جدت اور روشن خیالی نہیں آئی لیکن میڈیا پر بندش کے حربے زیادہ دیر نہیں چل سکتے ۔

انہوں نے سوشل میڈیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تو ہر جیب میں میڈیا موجود ہے تو طالبان انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی موجودگی میں کس طرح سے غیر ملکی اداروں کی کوریج کو بند کر سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں