سرینگر: مبینہ جھڑپ میں 3 کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کرنے والے بھارتی فوجی افسر کا کورٹ مارشل

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی فوج نے کہا ہے کہ نئی دہلی کے زیرِانتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں جولائی 2020 میں ایک”آپریشن” کے دوران تین نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے واقعہ میں ملوث فوجی افسر کیپٹن بھوپندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

بھارتی فوج نے 18 جولائی 2020 میں کہا تھا کہ فوجی افسر نے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں ”آپریشن” کے دوران تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ ہلاک کیے گئے تینوں افراد ان کے بقول غیرملکی باشندے لگ رہے تھے۔

البتہ بعد میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہلاک کیے گیے نوجوانوں کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان تھیں اور وہ دراصل سرحدی ضلع راجوری سے امشی پورہ کے ایک میوہ باغ میں مزدوری کے لیے ایک دن قبل ہی پہنچے تھے۔ او ر وہ مزدوری سے حاصل رقم سے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ تینوں نوجوان مزدوری کرنے کے لیے 17 جولائی کو راجوری سے شوپیاں پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا اور اُسی شام اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ا یک مقامی میوہ باغ میں کام مل گیا ہے اور وہ اگلے روز سے وہاں کام شروع کریں گے۔لیکن اس کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ وادئ کشمیر میں چوں کہ فون اور دوسری مواصلاتی سروسز اکثر بند ہو جاتی ہیں تو شاید ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔

بعد ازاں ان نوجوانوں کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے پر نوجوان محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان کے والدین اور دیگر رشتے داروں نے واقعے کی غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات اور ملوث فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مبینہ جھڑپ میں نوجوانوں کو ہلاک کیے جانے کے بعد پولیس نے ان کی لاشوں کو کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے گانٹہ مولہ کے علاقے کے ایک قبرستان میں دفن کردیا تھا۔ اس مقام پر عمومی طور پر حفاظتی دستوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک غیرملکی مبینہ عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا ہے۔

پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیوں کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی اور ان کی لاشوں کو وصول کرنے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے پولیس کے کردار کی بھی نکتہ چینی کی تھی۔ کیوں کہ پولیس نے ایک بیان میں ہلاک مبینہ عسکریت پسندوں کے زیرِاستعمال اسلحے کو ضبط کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

بعد ازاں یہ بات واضح ہونے پر کہ نوجوانوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا ہے پولیس نے یہ کہا تھا کہ اس نے واقعے سے متعلق بیان فوج کی فراہم کردہ اطلاع پر جاری کیا تھا۔

پولیس نے تحقیقات مکمل کیں، جس کے بعد ملزمان کے خلاف فردِجرم عائد کی گئی۔ اس فرد جرم میں کہا گیا کہ کیپٹن بھوپندر سنگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان نوجوانوں کو ہلاک کیا اور واقعے کے بارے میں اپنے اعلیٰ افسران اور جموں وکشمیر پولیس کو غلط معلومات فراہم کیں۔اس کے علاوہ دو اور ملزمان مقامی باشندوں تابش نذیر اور اسپیشل پولیس افسر بلال احمد خان لون کے ساتھ مل کر ثبوت جان بوجھ کر تباہ کیے جس میں اس عمارت کو آگ لگانا بھی شامل تھا جس کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ہلاک کیے جانے والے مبینہ عسکریت پسند اسے کمین گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ تابش اور بلال دووں بھارتی فوج کے لیے مبینہ طور پر مخبر کا کام کرتے تھے۔

پولیس چارج شیٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ان تینوں نے ایک مجرمانہ سازش کی تھی جس کا مقصد نقد انعامات حاصل کرنا تھا ۔البتہ فوج کا کہنا تھا کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ نے نقد انعام کے لالچ میں ایسا نہیں کیا ہوگا کیوں کہ جنگی حالات یا کسی بھی دوسری صورتِ حال میں بھارتی فوج میں اس کے اہل کاروں کے لیے ایسا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔

بعض حلقوں کے مطابق بھارتی کشمیر میں گزشتہ 32 برسوں سے جاری شورش سے نمٹنے والی سیکیورٹی فورسز کے کئی اہل کاروں نے ترقی پانے کے لیے ماضی میں اس طرح کی کارروائیاں کی ہیں، البتہ حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔

پولیس تحقیقات کے پس منظر اور بھارتی فوج کے اس اعتراف کے بعد کہ آپریشن کے دوران مارے گئے افراد وہی تین نوجوان تھے جن کے بارے میں ان کے والدین نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی اور ڈی این اے کی تصدیق کے بعد پولیس نے اکتوبر 2020 میں ان نوجوانو ں کی قبر کشائی کی تھی اور باقیات کو ورثا کےحوالے کیا تھا۔

ان افراد کی تدفین کے بعد ملوث فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تھا جس پر ردِعمل دیتے ہوئے بھارتی کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منہوج سنہانے نے تمام خدشات اور مفروضوں کو رد کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا تھا۔

حکام کی انصاف کی یقین دہانی

بعد ازاں بھارتی فوج نے اپنے سربراہ کی سرینگر میں موجودگی کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ جھڑپ سے متعلق شروع کی گئی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس آپریشن میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ 1990 سے تجاوزکیا گیا ہے۔اور فوج کے سربراہ کی طرف سے وضح کردہ ”اپنائیے اور باز رہیے” کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر اس آپریشن میں شامل افسر اورسپاہیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ ”کورٹ آف انکوائری”دسمبر 2020کے آخری ہفتے میں مکمل ہوئی تھی جس کے بعد شواہد کی سمری پیش کی گئی ۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ اب اس سارے معاملے کی تحقیقات متعلقہ فوجی حکام کریں گےاور اس سلسلے میں مزید پیش رفت قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد کی جائے گی۔

”بھارتی فوج اخلاقیات کی پابند”

اب فوج نے یہ اعلان کیا ہے کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان امروز موسوی نے کہا ہے کہ”بھارتی فوج اپنی کارروائیوں کے دوران اخلاقیات کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے”۔ انہوں نے کہا “اس معاملے میں مزید تفصیل اس بات کو مدنظر رکھ کر ہی فراہم کی جائے گی کہ اس سے قانون کی عمل داری میں کسی قسم کے تعصب یا طرف داری کی گنجائش پیدا نہ ہو”

ادھر مقتول ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ فوج نے انہیں اور مارے گئے دو دیگر نوجوانوں کے قریبی رشتے داروں کو بھی کورٹ مارشل کے سلسلے میں سرینگر بلایا اور ان سے پولیس میں درج کرائی گئی گمشدگی کی رپورٹ اور دوسری ضروری دستاویزات طلب کیں۔

انہوں نے کہا کہ” ہم نے یہ دستاویزات فوج کو فراہم کردی ہیں۔ ہمارے یہاں فوج ہی دیکھ بھال کر رہی ہے ۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔”

خیال رہے کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں پر فرضی جھڑپوں میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ البتہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارتی فوج نےاپنے کسی افسر کے خلاف کورٹ مارشل کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔

اس سے قبل 20 مارچ 2000 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کےدورۂ بھارت کے دوران کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں مسلح افراد نے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کو ان کے گھروں سے نکال کر سڑک پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔

بھارتی حکومت نے چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام کے لیے مسلمان مبینہ عسسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔ واقعے کے پانچ دن بعد بھارتی فوج اور کشمیر کی پولیس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اننت ناگ ہی کے پہاڑی علاقے پتھری بل میں کی گئی ایک کارروائی کے دوراں چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام میں ملوث پانچ مبینہ دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مارے گئے تمام افراد غیرملکی تھے۔

البتہ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مارے گئے پانچوں افراد مقامی تھے جنہیں فوج اور پولیس اننت نگر کے مختلف علاقوں سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی اورپھر انہیں پتھری میں ایک سنسان جگہ پر لے جاکر ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کردیا تھا۔

عام شہریوں کو اس مبینہ انکاؤنٹر میں قتل کرنے پر احتجاج کیا گیا تھا جس پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے دس شہری ہلاک ہوگئے تھے۔بعد ازاں اس مبینہ انکاؤنٹر میں ملوث بھارتی فوج کے بریگیڈیئر اجے سکسینہ، لیفٹننٹ کرنل بریجندر پرتاپ سنگھ، میجر سوربھ شرما، میجر امیت سکسینہ اور صوبیدار ادریس خان کے خلاف بھارت کے تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن نے 2006 میں عدالت میں فردِ جرم دائر کی تھی۔

تاہم جنوری 2014 میں بھارتی فوج نے اس کیس کویہ کہکر بند کردیا کہ ملزموں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا ۔

‘حکومت ایماندار اور محب وطن اہل کاروں کی حوصلہ شکنی نہیں چاہتی’

یہ معاملہ چند دوسرے مشکوک واقعات ہی کی طرح انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

البتہ بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ کئی معاملات میں ایسے سیکیورٹی اہل کاروں کے خلاف قانون کے تحت مناسب کارروائیاں کی گئی ہیں جنہوں نےجموں و کشمیر میں ڈیوٹی انجام دینے کے دوران حاصل اختیارات کا غلط استعمال کیا یا ان سے تجاوز کیا۔ لیکن سیکیورٹی فورسز کو ملنے والی ان سزاؤں کی عام طور پراس لیے تشہیر نہیں کی جاتی تاکہ اس سے ان سیکیورٹی اہل کاروں کے حوصلے پست نہ ہوں جو اپنے فرائض ایمانداری اور جانفشانی سے انجام دے رہے ہیں تاکہ ملکی سالمیت پرکوئی آنچ نہ آئے۔

ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا “اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیکیورٹی اہل کاروں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ انہیں ان کے کیے کی سزائیں دی گئی ہیں۔ اس کی تشہیر اس لیے نہیں کی گئی کیونکہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز نہیں چاہتی کہ ان کی وجہ سے ایماندار اور محب وطن اہل کاروں اور افسران کی حوصلہ شکنی ہو۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں