عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے فوج کو سیاست میں مت لائیں، ترجمان پاکستانی فوج

راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ’عوام اور سیاسی پارٹیوں سے‘ درخواست ہے کہ ’فوج کو سیاست میں مت لائیں اور ہمیں اس بحث سے باہر رکھیں۔‘

پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے بتایا کہ دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس ہوئی جس میں سکیورٹی چیلنجز کے بارے میں بریف کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور رول آف لا کو یقینی بنانے پر تمام شرکا نے اتفاق کیا ہے۔ اور ’جمہوریت میں سب اداروں کا آئین کے دائرے میں کام کرنا بھی بہترین مفاد میں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ افواج پاکستان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی استعمال کر کے سابقہ افسران کے جعلی پیغام بنائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بے بنیاد کردار کشی قابل قبول نہیں۔‘

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بہتر ہوگا کہ فیصلے عدالتوں پر چھوڑ دیں۔

کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا، سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی ، سال کے پہلے تین ماہ 128دہشت گرد ہلاک اور 270 گرفتار کیے گئے، پاک فوج کے 168 افسران جوان عالمی سطح پر امن کوششوں میں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

پاکستان میں مارشل لا کبھی نہیں آئے گا: ڈی جی آئی ایس پی آر

جب ان سے پوچھا گیا کہ نو اپریل کی رات کو عدالتوں کے کھلنے اور مارشل لا کی افواہوں کے بارے میں ان کا کیا مؤقف ہے تو اُنھوں نے کہا کہ یہ باتیں بے بنیاد ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں، کیا آپ کے خیال میں وہ فوج کے کنٹرول میں ہیں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے اور اس کی طاقت ادارے ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ ہو، سپریم کورٹ ہو یا مسلح افواج ہوں۔

مارشل لا کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔

میجر جنرل بابر افتخار کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں۔

’قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں (غیر ملکی) سازش کا ذکر نہیں ہے۔‘

عمران خان کے ایبسولوٹلی ناٹ کے بیان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکہ نے فوجی اڈے مانگے نہیں تھے مگر اگر مانگتے تو فوج کا بھی وہی جواب ہوتا جو وزیراعظم عمران خان کا تھا۔

’فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے پریس بریفنگ کے دوران مزید بتایا کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی قائدین سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ’میں کبھی کسی سے ملنے نہیں گیا تو مجھ سے کیوں بار بار ملنے آتے ہیں۔‘

’گلگت بلتستان سے متعلق میٹنگ کے دوران بھی یہ بات ہوئی۔ کسی نے کہا تھا آپ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں جس پر چیف نے کہا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کسی ضمنی انتخاب میں فوج کی طرف سے مداخلت کا الزام نہیں لگایا گیا۔ پہلے لوگ باتیں کرتے تھے کہ فون کالز آتی ہیں۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور یہ اب ایسا ہی رہے گا۔ یہ فوج کا آئینی کردار ہے اور ہم یہ کرنے کے لیے آپ کی حمایت چاہتے ہیں۔‘

’اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشن نہیں دیا گیا‘

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو تین آپشنز فوج نے نہیں بلکہ اپوزیشن نے دیے اور فوجی قیادت کی جانب سے ڈیڈلاک ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کی تیسری آپشن پر وزیر اعظم عمران خان نے رضا مندی ظاہر کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشن نہیں دیا گیا۔‘

’جنرل باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے اور نہ ہی انھوں نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کریں گے اور رواں سال نومبر کے آخر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

کیا فوج کے اندر تفریق ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال

ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ فوج کے اندر جانبدار اور غیر جانبدار کے کیمپس کے حوالے سے باتیں گردش کر رہی ہیں۔

اس کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ایسی باتیں کرنے والے فوجی اقدار سے واقف نہیں، سات لاکھ کی فوج وہیں دیکھتی ہے جہاں آرمی چیف کی نظر ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ اس میں نہ آج تک کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان باتوں میں کوئی سچائی موجود نہیں۔

’دیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دیمارش (احتجاجی مراسلے) صرف سازش پر نہیں دیے جاتے بلکہ یہ سفارتی عمل کا حصہ ہے۔

ان سے پوچھا گیا تھا کہ اگر غیر ملکی سازش نہیں تو دفتر خارجہ نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر دیمارش کیوں جاری کیا تھا۔

کیا فوج اور عمران خان کے درمیان خلیج ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج پر کچھ حلقوں کی تنقید کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ عمران خان اور آرمی چیف کا ایک اچھا ذاتی تعلق ہے اور ان کے درمیان کوئی مسائل نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اس حوالے سے بہت مثبت بیانات بھی دیے ہیں۔

شہباز شریف کی حلف برداری میں آرمی چیف کی عدم شرکت پر سوال

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس دن جنرل باجوہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔

اُنھوں نے بتایا کہ فوجی سربراہ اس دن اپنے دفتر بھی نہیں آئے تھے۔

’جنرل باجوہ نے سکیورٹی ڈائیلاگ میں حکومتی خارجہ پالیسی کا اعادہ کیا‘

ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ گذشتہ ساڑھے تین برس میں امریکہ اور انڈیا کے ساتھ تعلقات بہت تناؤ کے شکار رہے ہیں جبکہ آرمی چیف نے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں حال میں دونوں ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا اشارہ دیا ہے۔

اس پر اُنھوں نے کہا کہ آرمی چیف کی سکیورٹی ڈائیلاگ میں کی گئی تقریر پر بہت تنقید ہوئی کہ یہ خارجہ پالیسی کے ڈومین میں مداخلت ہے مگر اُنھوں نے کوئی بات پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کے منافی نہیں کی۔

اس سوال پر کہ فوج ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا ان پٹ دے گی، جنرل بابر نے کہا کہ سٹریٹجک سطح پر جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو سیاسی قیادت اپنے طور پر بات کرتی ہے اور فوج بھی اپنی طرف سے مؤقف دیتی ہے۔

‘امریکا نے پاکستان سے اڈے مانگے ہی نہیں تھے’

افواجِ پاکستان کے ترجمان نے مزید بتایا کہ امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے طلب نہیں کیے اور اگر ایسا مطالبہ کیا جاتا تو فوج کا مؤقف بھی وہی ہوتا جو سابق وزیرِ اعظم کا ہوتا۔

خیال رہے کہ رواں برس ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں امریکہ کی جانب سے فوجی اڈے مانگے جانے کے سوال پر اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ‘ایبسلوٹلی ناٹ’ کہا تھا۔

سوشل میڈیا مہم میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا مہم سےمتعلق بہت ساری معلومات آچکی ہیں، سوشل میڈیا کیلئے کچھ قانون ہیں،ان پر عمل کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، آرمی چیف جس ادارے کے سربراہ ہیں وہ حکومت کے ماتحت ہے، فوج کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ملکی مفاد میں نہیں،ادارےکےسربراہ کے خلاف کوئی بات ہوئی توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ کارروائی کرے،ہمیں اپنی سوسائٹی کوانسولیٹ کرنےکیلئے بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، ہماری فوج ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے، سوسائٹی کو سوشل میڈیاکے اثرات سے بچانے کیلئے بہت مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جس دن وزیراعظم نے حلف لیا اسٹاک مارکیٹ میں اوپرگئی اور ڈالر نیچےگیا، یہ ایک طرح کامعاشی استحکام لگتاہے ، سی پیک بہت بڑا اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے، ٹی ٹی پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ، فوج نے ٹی ٹی پی کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں