افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہو رہی ہے، پاکستانی دفتر خارجہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغانستان کی طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔

اتوار کے روز پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان طالبان حکومت کی جانب سے پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں کی افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ علاقوں پر بمباری کا الزام عائد کرنے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے سنیچر کی صبح افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ حصوں پر گولہ باری کی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کئی بار افغانستان کی حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے

دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کیا گہا گیا؟

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد گروہ پاکستان کی سرحد پر حفاظتی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان حملوں میں کئی پاکستانی فوجی ’شہید‘ بھی ہوئے ہیں۔ 14 اپریل کو افغانستان سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے سات جوانوں کو شہید کیا۔‘

بیان یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان، دہشتگردی کے لیے افغان سر زمین استعمال ہونے کی شدید مذمت کرتا ہے، یہ دہشت گردی پاکستان افغان سرحد پر امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تمام شعبوں میں دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے افغانستان کی حکومت کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔

پاکستانی سفیر منصور احمد خان کی طالبان وزارت خارجہ میں طلبی

پاکستان پر فضائی حملوں کے الزام کے بعد طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کیا۔

افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’افغان حکام نے خوست اور کنڑ کے کچھ حصوں میں پاکستانی افواج کے حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اس مزید ایسے حملے نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔‘

طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستانی سفیر سے کہا ہے کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام عسکری خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کے برے نتائج ہوں گے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کے علاوہ پاکستانی سفیر سے ملاقات میں طالبان کے نائب وزیر دفاع الحاج ملا شیریں اخوند نے بھی شرکت کی۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفارتخانے کے ذرائع نے بی بی سی کے نامہ نگار خدائے نور ناصر کو بتایا کہ گذشتہ روز وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد پاکستانی حکام نے افغان سفیر کو ایک خط بھیجا تھا جس میں کیا گیا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔

ذرائع کے مطابق ’یہ خط کابل بھیجا گیا اور وہاں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن بد قسمتی سے تحقیقات سے پہلے ہی پاکستانی طیاروں نے گذشتہ رات خوست اور کنٹر میں بمباری کر دی۔‘

پاکستانی کی قومی اسمبلی میں حملوں کی گونج

شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ جیٹ طیاروں نے گذشتہ شب پاک افغان سرحدی علاقے میں بمباری کی اور اس واقعے کی تحقیقات کروائی جائیں۔

انھوں نے بتایا کہ افغانستان کے اس علاقے میں پاکستان سے گئے ہوئے آئی ڈی پیز بھی ہیں۔ انھوں نے گذشتہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی واپسی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ سپیکر کی جانب سے پروڈکشن آڈر پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے جنوبی وزیرستان کے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی اس موضوع پر بات کی۔

علی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی لیکن معلوم نہیں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس موقع پر بھی محسن داوڑ نے بلند آواز میں بتایا کہ چالیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

بعد ازاں بی بی سی سے گفتگو میں محسن داوڑ نے بتایا کل اس علاقے میں پاکستان کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگ مقیم ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول کے ساتھ کچھ ویڈیوز بھی شیئر کیں جن میں موجود کچھ لوگ زخمی ہیں اور بظاہر وہ کسی ہسپتال میں موجود ہیں اور ان کی مرہم پٹی کی گئی ہے تاہم بی بی سی کو آزادانہ ذرائع سے یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ ویڈیوز کب اور کہاں کی ہیں۔

ایک ایسی ویڈیو بھی شیئیر کی گئی جس میں بہت سے افراد کی لاشیں ایک جگہ موجود ہیں، جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہیں۔

ایک ویڈیو میں ایک زخمی شخص جس کے سر پر پٹی کی گئی ہے، بتاتا ہے کہ رات دو سے تین بجے تھے اور ہم سو رہے تھے، بمباری ہوئی پھر دو بار فائر بھی ہوا۔

وہ زخمی شخص بتاتا ہے کہ 20 سے 30 افراد ہلاک ہوئے اور وہ کچھ لوگوں کو لے کر بھی گئے ہیں۔

حملے ہوئے کہاں؟

خوست میں مقامی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے ہفتے کی صبح سپیرا ضلع کے چار دیہات میں ہوئے جس میں متعدد خاندانوں کے کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تاہم اب تک ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

ذرائع کے مطابق حملے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد مارے گئے۔ دو دیگر خاندانوں کے پانچ سے چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بعد نقل مکانی کرنے والے خاندان آباد ہیں۔

خوست کی صوبائی انتظامیہ نے بھی ان حملوں کی تصدیق کی لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

خوست میں ذرائع نے بتایا کہ طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان فضائی حملوں کے بعد جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔

دریں اثنا مشرقی صوبہ کنڑ سے ملنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضلع شلتن کے علاقے چپری تاگہ میں فضائی حملے میں مقامی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان کے ایک صوبائی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’حملے میں ایک خاتون اور تین بچے ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں