افغانستان: قندوز میں امام صاحب مسجد میں دھماکا، 33 افراد ہلاک، 43 زخمی

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے صوبے قندوز کی ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے دھماکے میں 33 افراد ہلاک اور 43 زخمی ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق گزشتہ روز بھی افغانستان میں دو دھماکے ہوئے تھے جس کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جب طالبان جنگجوؤں نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد گزشتہ سال افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، تب سے ملک میں بم دھماکوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن جہادی گروپس اور سنی مسلک کی پیروکار آئی ایس نے ان اہداف کے خلاف حملے جاری رکھے ہیں جنہیں وہ اپنے مذہبی عقائد کے خلاف سمجھتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ شمالی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں بچوں سمیت 33 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس جرم کی مذمت کرتے ہیں اور سوگواروں سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔’

سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ پوسٹ کی گئی تصاویر میں قندوز شہر کے شمال میں واقع صوفیوں کے حوالے سے مشہور مولوی سکندر مسجد کی دیواروں میں سوراخ دیکھے جاسکتے ہیں۔

مسجد کے قریب ایک دکان کے مالک محمد اصاح کا کہنا تھا کہ مسجد کا منظر خوف ناک تھا، مسجد کے اندر موجود تمام عبادت گزار یا تو زخمی تھے یا ہلاک ہوگئے۔

قریبی ضلعی ہسپتال کی ایک نرس نے فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے سے 30 سے 40 کے درمیان زخمیوں کو داخل کرایا گیا ہے۔

اس سے قبل، قندوز میں صحت عامہ کے سربراہ نجیب اللہ ساحل نے غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا تھا کہ دھماکہ ایک صوفی مسجد میں ہوا اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر نمازی تھے جو نماز کے بعد ذکر کے لیے جمع ہوئے تھے۔

آج افغانستان میں اس دھماکے کے علاوہ دارالحکومت کابل میں دارالامان روڈ پر وزارت تجارت کے قریب دھماکہ ہوا تھا۔ کابل کے پولیس چیف کے ترجمان خالد زدران نے بی بی سی پشتو سروس کو بتایا کہ دھماکے میں ایک شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی افغانستان کے دو شہروں مزار شریف اور قندوز میں الگ الگ بم دھماکوں میں 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز ‘ کے مطابق دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں مزار شریف کی ایک مسجد میں نشانہ بننے والے 50 افراد بھی شامل تھے۔

افغان صوبے بلخ کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ ذبیح اللہ نورانی نے اے ای ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 25 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا تھا کہ دھماکوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے ہیں.

اس کے علاوہ، قندوز شہر میں ہونے والے ایک دھماکے میں کم از کم 4 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے تھے۔

قبل ازیں جمعے کو طالبان حکام نے کہا تھا کہ انھوں نے مزار شریف کی مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کے آئی ایس کے ذمے دار ’ماسٹر مائنڈ‘ کو گرفتار کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ 3 روز قبل کابل میں لڑکوں کے اسکول میں ہونے والے دوہرے دھماکوں میں 6 افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

ملک کی 3 کروڑ 8 لاکھ آبادی میں سے 10 سے 20 فیصد کے درمیان تعداد رکھنے والی افغانستان کی شیعہ ہزارہ برادری طویل عرصے سے حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے، شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں سے کچھ کا الزام طالبان پر اور کچھ کا داعش پر لگایا جاتا ہے۔

طالبان حکام اصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے آئی ایس کو شکست دے دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ ملک کی سیکیورٹی کے لیے اب بھی ایک اہم چیلنج ہے۔

اس دہشت گرد گروپ نے حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں ہونے والے کچھ ہلاکت خیز ترین حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں کابل کے دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں میں کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ طالبات تھیں، دھماکوں میں 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی، تاہم، اکتوبر 2020 میں آئی ایس نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا اعتراف کیا تھا جس میں طلبا سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مئی 2020 میں اس گروپ پر اسی محلے کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا، حملے میں خواتین مریضوں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان کا افغانستان میں دہشت گرد حملوں پر اظہار مذمت

پاکستان نے گزشتہ چند دنوں کے دوران افغانستان کے مختلف حصوں میں حالیہ دہشت گردی کےہ حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے اور افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے حصول کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام دہشت گردی کے ان حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام دکھ کی اس گھڑی میں اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

طالبان کی جانب سے داعش کے ایک سینئر رکن کی مبینہ گرفتاری

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت نے صوبہ بلخ میں داعش کے ایک سینیئر رکن کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

باختر نیوز جنس ایجنسی، جس پر اس وقت طالبان کا کنٹرول ہے، کے مطابق اس شخص کی شناخت عبدالحمید سنگریار کے نام سے ہوئی ہے، جو کہ سابق گورنر اور بلخ میں داعش کے حملوں کو منظم کرنے کا ذمہ دار ہے۔

طالبان نے کہا ہے کہ وہ کئی مہینوں سے داعش کے رکن کا تعاقب کر رہے تھے اور اسے کل شام ایک خصوصی آپریشن میں گرفتار کیا گیا۔

طالبان کے مطابق داعش کے رکن کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حالیہ دنوں میں کابل، مزار شریف اور دیگر افغان صوبوں میں خودکش حملوں میں تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں کافی جانی نقصان ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں