پاکستانی بحریہ اور امریکی بحریہ کے ساتھ خفیہ جنگی مشقیں

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سیاسی معاملات میں امریکی مداخلت کے الزامات کے تحت پاکستان کا ایک بڑا طبقہ امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا، عین اس وقت امریکی اور پاکستانی افواج گہرے پانیوں میں دنیا کی اہم ترین بحری راستوں کی حفاظت، قزاقی کا مقابلہ کرنے اور دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے مل کر بین الاقوامی پانیوں میں گشت کرنے کی مشقیں کر رہے تھے۔

کراچی میں امریکی قونصل خانے کے مطابق امریکی بحریہ کے جہاز ’یو ایس ایس گرڈلے‘، ’یو ایس ایس ڈیوسٹیٹر‘ اور ’یو ایس ایس ڈیکسٹرس‘ نے کراچی کا دورہ کیا اور پانچ روز یعنی 19 اپریل سے 23 اپریل تک ‘ایکسرسائز انسپائرڈ یونین’ نامی مشقوں میں پاکستانی بحریہ کے ساتھ شرکت کی۔

کراچی میں امریکی سفارتخانے نے بی بی سی کے تحریری رابطے پر تصدیق کی ہے کہ امریکی اور پاکستانی بحریہ نے رواں ہفتے بحری جہاز رانی کے فروغ اور بحری قزاقی کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ مشق کی ہے۔

تاہم پاکستانی بحریہ کے تعلقات عامہ کے ادارے کے حکام نے اس مشق کے بارے میں نہ صرف کوئی بیان جاری نہیں کیا بلکہ بی بی سی کے رابطہ کرنے کے باوجود ان مشقوں کے ہونے کے بارے میں تصدیق یا تردید سے بھی معذرت کی۔

جب ان مشقوں کو منعقد کیے جانے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو بحریہ کے ترجمان نے جواب میں کہا کہ انھیں اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

پاکستان بحریہ کے ترجمان سے معلوم کیا گیا کہ کیا ان مشقوں کا کوئی اعلامیہ یا تصویر جاری کی جا رہی ہے تو ترجمان کا جواب تھا کہ کچھ بھی نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ نہیں بتائی گئی۔

کراچی میں امریکی سفارتخانے کے مطابق امریکی اور پاکستانی بحریہ نے متعدد شعبوں میں ماہرین کے تبادلے کیے، خاص طور پر انسدادِ بحری قذاقی کی کارروائیوں پر توجہ دی گئی۔

ترجمان نے مزید کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے فوجی تعلقات مضبوط اور پائیدار ہیں، جو کہ عملے کے تبادلے اور مشترکہ مشقوں، جیسے انسپائرڈ یونین، تعاون اور تعاون کو بڑھانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

امریکی ترجمان نے پاکستان نیوی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کمبائنڈ میری ٹائم فورسز میں مشترکہ خدمات کے ذریعے، امریکہ اور پاکستان نے دنیا کی اہم ترین بحری راستوں کی حفاظت، قزاقی کا مقابلہ کرنے اور دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے مل کر بین الاقوامی پانیوں میں گشت کیا ہے۔ درحقیقت پاکستان نے ان کثیر الاقومی بحری کوششوں کی قیادت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ کی ہے۔

بحیرہ عرب میں ان پانچ روزہ مشقوں کے بارے میں پاکستان بحریہ کی جانب سے خلاف معمول کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔

اس سے قبل رواں سال جنوری کے آخری ہفتے میں بھی دونوں ملکوں کی بحری افواج نے اسی نوعیت کی مشقیں کی تھیں جس کا پاکستان نیوی نے باضابطہ اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی بحریہ کے جہازوں کا دورہ کراچی اور دوطرفہ مشقیں علاقائی امن کے لیے کام کرنے کے لیے پاک بحریہ کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

پاکستان بحریہ کے ترجمان نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان عمومی طور اور بلخصوص بحریہ کے درمیان تعاون کو مزید فروغ ملے گا۔

ریڈیو پاکستان کی ویب سائیٹ پر موجود اس اعلامیے کے مطابق جنوری کے آخری ہفتے ہونے والی ان مشقوں میں شرکت کے لیے آنے والے امریکی بحریہ کے بحری جہاز سکوئل اور وہرلونڈ کا کراچی بندرگاہ پہنچنے پر پاکستان بحریہ اور امریکی سفارتخانے کے اعلیٰ حکام نے استقبال کیا تھا۔

دفاعی تجزیہ نگار اور مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ جنگی مشقوں کو کبھی بھی خفیہ رکھا نہیں جا سکتا، دونوں ملکوں میں گذشتہ سوا سال سے یہ مشقیں جاری ہیں، اس سے عوام کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ خوف یا کوئی خدشہ ہو سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے افواج میں جو تعاون ہے وہ ہے ہی دونوں ممالک کے بحری افواج میں، انھیں یاد نہیں پڑتا کہ ماضی میں کبھی ان مشقوں کو چھپایا گیا ہو۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں تحریک انصاف کی جانب سے جاری امریکی مخالف بیانیہ اس کی وجہ ہو سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں لگتا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے امریکہ مخالف بیانات اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت ہٹانے کے لیے مبینہ طور پر امریکہ نے سازش کی ہے اس بارے میں وہ ایک سفارتی کیبل کا بھی حوالہ دیتے رہے ہیں تاہم امریکہ اس کی متعدد بار تردید کر چکا ہے جبکہ پاکستان کی قومی سکیورٹی کمیٹی نے بھی کسی بیرونی سازش کو رد کیا ہے۔

اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کے برعکس افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی تعاون اور اشتراک کی تعریف کرتے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں منعقدہ سکیورٹی ڈائیلاگ کے دوسرے روز شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان کیمپوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔

’چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بھی بہترین سٹریٹجک تعلقات ہیں اور پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کیے بغیر مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی سٹریٹجک تعلق ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے سے عیاں ہے۔اسی طرح ہماری امریکہ کے ساتھ بہترین سٹریٹجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے اور امریکہ ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں