چین کے شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے، کراچی خودکش حملے کے بعد بیجنگ کی تنبیہ

بیجنگ (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ نے جامعہ کراچی میں منگل کو ہونے والے خودکش حملے میں چینی اساتذہ کی ہلاکت کے واقعے کو پاک چین دوستی پر حملہ قرار دیا ہے۔

وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے تمام انتظامات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے گا اور دہشت گردوں سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔ ان کے بقول جامعہ کراچی خودکش حملے کی تحقیقات سے چین کو مکمل طور پر آگاہ رکھا جائے گا۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وہ کراچی جا رہے ہیں جب کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے وفاقی حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔

رانا ثنااللہ کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب چین نے پاکستان سے واقعے کی تحقیقات جلد مکمل کرنے اور ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

چین کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ” چین کے شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے اور جو لوگ اس حملے کے پیچھے ہیں انہیں اس کی قیمت چکانا ہو گی۔”

چین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں مقیم چینی باشندوں کی حفاظت اور مستقبل میں اس طرح کے حملوں کے انسداد کو یقینی بنایا جائے۔چین کا سفارت خانہ اور کراچی میں قونصلیٹ جنرل آفس پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے۔

دوسری جانب واقعے کی تحقیقات کے لیے سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی سی آئی اے کراچی کے ڈی آئی جی کریم خان کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم میں ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر، ایس ایس پی ایسٹ عبدالرحیم شیرازی اور ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ سیل زبیر نذیر شامل ہیں.

خودکش حملے کا مقدمہ درج نہ ہو سکا

کراچی یونیورسٹی میں بلوچ طالبہ کے خودکش حملے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا جب کہ واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں بدھ کو تدریسی عمل معطل ہے اور تحقیقاتی اداروں نے یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کر کے تحقیقات کے دائرے کو بڑھا دیا ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق خودکش حملے میں تین سے چار کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کے مطابق خودکش حملے کا نشانہ بننے والے چینی اساتذہ کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ تھی اور اسی وجہ سے انہیں سیکیورٹی بھی دی گئی تھی تاہم یہ اطلاع نہیں تھی کہ خاتون کو استعمال کر کے خودکش حملہ کیا جائے گا۔

مقامی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں بات کرتے ہوئے غلام نبی میمن کا مزید کہنا تھا کہ خودکش حملے میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ کو استعمال کیا گیا اور جامعہ کے اندر بارودی مواد پہنچنے سے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ برقع پوش خاتون نے خودکش دھماکہ اس وقت کیا تھا جب چینی اساتذہ کی وین کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کی جانب رواں دواں تھی۔

خود کش حملے کی ذمے داری ‘بلوچ لبریشن آرمی’ نامی تنظیم نے قبول کی ہے اور اس میں استعمال ہونے والی خاتون کا نام شیری بلوچ بتایا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ریزیڈنٹ اینڈ ہیومینیٹرین کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کراچی یونیورسٹی خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں قیمتی انسانوں جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے اساتذہ اور تعلیمی ادارے کو نشانہ بنانا قابلِ مذمت ہے، ان کی ہمدردریاں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے چینی اور پاکستانی باشندوں کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔

دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں حملہ چین کے خلاف سلسلہ وار حملوں کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے جس کی ذمے داری کا دعویٰ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے کیا ہے۔ یہ گروپ پہلے بھی چینی مفادات پر حملوں میں ملوث رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں