مسجدِ نبوی میں نعرے بازی: عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے، وفاقی وزیِر داخلہ رانا ثنا اللہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے مسجدِ نبوی میں نعرے بازی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم ’عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘

یاد رہے گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان، فواد چوہدری، شیخ رشید، شہباز گل، شیخ راشد شفیق، صاحبزادہ جہانگیر چیکو، انیل مسرت، نبیل نسرت، عمیر الیاس، رانا عبدالستار، بیرسٹر عامر الیاس، گوہر جیلانی، قاسم سوری اور تقریباً 100 کے قریب لوگوں نے سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی حرمت و تقدس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قران کے احکامات کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔‘

’قانون اپنا راستہ لے گا‘

نجی چینل جیو نیوز پر مسجدِ نبوی میں ہونے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کی منصوبہ بندی ماضی میں کبھی نہیں ہوئی اور یہ 100-150 لوگ تھے۔‘

ان کا کہنا تھا ’ان افراد کو قطعی طور پر معافی نہیں دی جا سکتی‘ اور وہ اس سلسلے میں وہ سودی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں گرفتار ’کچھ افراد کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے اور دیگر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے مزید بتایا کہ ’باقی لوگوں کے خلاف تفتیشی ٹیم سارے ثبوت اکھٹے کرے گی اور جس جس کے خلاف کوئی ثبوت ملے گا، اس کےخلاف قانون اپنا راستہ لے گا۔‘

اس سوال پر کہ’ عمران خان کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے کیا انھیں بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے؟‘ کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا ’جی بالکل عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘

’شیخ رشید کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی‘

دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے اس مقدمے کے جواب میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی انتقام ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ’جھوٹے پرچوں سے بھی کبھی حکومتیں بچی ہیں؟ ہم دیکھیں گے کہ یہ ٹولہ چند ہفتوں میں اپنے انجام کو پہنچے گا۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے بھتیجے اور قومی اسمبلی کے رکن شیخ راشد شفیق کو ایئرپورٹ سے اغوا کیا گیا اور شیخ رشید کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔

واضح رہے کہ توہین مذہب کے مقدمے میں شیخ رشید اور شیخ راشد شفیق کے نام بھی درج ہیں اور رانا ثنا اللہ کے مطابق انھوں نے مسجد نبوی واقعے کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کیا۔

مقدمے میں کیا کہا گیا؟

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ‘مزید تحقیق پر علم ہوا کہ عمران احمد، فواد احمد چوہدری، شیخ رشید احمد، شہباز گل اور قاسم سوری کی ایما پر اعانت اور سازش مجرمانہ فعل ہے۔’

مقدمے میں الزام عائد کیا گیا کہ ’چند پاکستانی شر پسندوں کا وفد سعودی عرب کیا گیا تھا اور اس حوالے سے ویڈیو ریکارڈ پر موجود ہے جو دوران تفتیش پیش کر دی جائے گئی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ‘اس سازش میں شریک ہونے کے لیے ایک وفد برطانیہ سے سعودی عرب پہنچا اور بطور ثبوت ان کی وڈیوز بھی دوران تفتیش پیش کر دی جائے گئی۔

فیصل آباد میں پولیس کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ مقدمہ درج کر لیا گیا اور اس ابتدائی اطلاعی رپورٹ پر تفتیش کی جائے گی جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ وقوعہ کیا ہے، کہاں پر ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے۔ ’اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اس مقدمے کو خارج کرنا ہے یا زیرِ تفتیش رکھنا ہے۔‘

سعودی عرب میں پاکستانی شہری زیر حراست

اس سے پہلے سعودی عرب کے شہر مدینہ کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ مسجدِ نبوی میں جمعرات کو پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں پانچ پاکستانی شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سعودی پریس ایجنسی نے مدینہ پولیس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ سکیورٹی حکام نے پاکستانی شہریت کے حامل پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے جنھوں نے پاکستانی شہریت کی حامل خاتون اور اس کے ساتھیوں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ مسجد نبوی کے صحن میں موجود تھے‘۔

ترجمان کے مطابق ان افراد کو گرفتار کر کے قانونی کارروائی مکمل کی گئی اور معاملے کو مجاز حکام کو بھیج دیا گیا۔

خیال رہے کہ جمعرات کی شام پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ان کے وفد میں وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیرِ نارکوٹکس شاہ زین بگٹی کو مسجد نبوی کے صحن میں موجود پاکستانیوں کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان افراد نے پاکستانی وزرا اور ان کے ساتھیوں کو گھیرے میں لے کر نعرے بازی کی تھی اور جہاں مریم اورنگزیب کے لیے نازیبا زبان استعمال کی تھی وہیں شاہ زین بگٹی کے بال بھی کھینچے گئے تھے اور انھیں دھکے دیے گئے تھے۔

سعودی عرب میں کسی بھی قسم کے مظاہرے کرنا ممنوع ہے۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں آنے والے زائرین کو بھی وہاں کے تقدس کا خیال رکھنے کو کہا جاتا ہے اور لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثے سے روکا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں حرم کے اندر یا باہر سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔

وہاں کے مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ بدانتظامی کرنے والوں کو عمرہ سکیورٹی پر مامور اہلکار گرفتار کرتے ہیں لیکن انھیں تشدد کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور قاضی انھیں کس نوعیت کی سزا دیتے ہیں یہ کبھی سامنے نہیں آیا۔

جمعرات کی شب سے ہی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم پاکستان میں موجود سعودی سفارتحانے نے جمعے کی شام ان اطلاعات کی تصدیق کی تھی کہ مدینہ منورہ میں نعرے بازی کرنے والے چند پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تاہم بی بی سی نے اس بارے میں سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے حکام سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایسی کسی خبر کی تصدیق نہیں کی گئی۔ جو بھی ہو گا وہ پہلے سعودی پریس ایجنسی پر آ جائے گا تب ہی اس کی تصدیق ہو سکے گی۔

پاکستان نے بھی مسجدِ نبوی میں پیش آنے والے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’پاکستان سعودی وزارت خارجہ سے درخواست کرے گا کہ وہ مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعے پر کارروائی کرے۔ شناخت کر کے ان کو ملک بدر کیا جائے، سعودی حکام سے درخواست کریں گے کہ ملوث افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں بھجوائی جائیں تا کہ ان کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔’

سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ چند روز قبل بھی جدہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں کی ایک احتجاجی نشست کے بعد بھی سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف 13 رکنی وفد کے ہمراہ تین روزہ سرکاری دورے پر جمعرات کو مدینہ پہنچے تھے۔

وزیراعظم کے دورے سے قبل سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’مکہ مدینہ والے لوگ دیکھیں ان (پی ایم اور اتحادیوں ) کے ساتھ کل کیا کریں گے۔‘ پھر سب نے دیکھا کہ مدینہ میں مسجد نبوی میں کیا ہوا۔

اس وقت ٹوئٹر پر ٹرینڈ چل رہا ہے کہ مسجد نبوی کی توہین نامنظور۔ اس ہیش ٹیگ کے ساتھ نو لاکھ سے زیادہ ٹویٹس کی گئی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا ردعمل

اس واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ٹویٹر ہینڈل اور سابق وفاقی وزرا نے ان ویڈیوز کو شیئر کیا اور اپنے پیغامات میں بظاہر اس واقعے کو عوامی ردعمل کہا۔

سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’امپورٹڈ حکومت کے مجرموں کو، جنھیں امریکی سازش کے ذریعے لایا گیا، مدینہ شریف میں ’چور چور‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جب بھی جائیں گے پاکستانی ان بدمعاشوں کا پیچھا کریں گے۔‘

اسی طرح فواد چوہدری نے اس واقعے کے بعد طنزاً لکھا ’عمرے کے سرکاری وفد میں جو 74 لوگ نہیں جا سکے انھوں نے آج با جماعت شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اور ابھی یہ لوگ حکومت میں ہیں جب لوگ ان کو ایوانوں سے ٹھنڈے مار کر نکال باہر کریں گے پھر یہ گھروں سے کیسے باہر نکلیں گے۔‘

واقعہ کیسے پیش آیا؟

اس واقعے کے عینی شاہدین میں کچھ صحافی بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک مقامی صحافی ذکا اللہ محسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جمعرات کی شام تقریباً پانچ سوا پانچ بجے کے قریب وزیراعظم شہباز شریف کا طیارہ رائل ٹرمینل پر لینڈ ہوا، مدینہ کے گورنر نے ان کا استقبال کیا اور وہیں دونوں حکام کی بیٹھک ہوئی۔ دو طرفہ تعلقات پر رسمی بات چیت ہوئی۔ سکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ یہ قافلہ دارالامان نامی ہوٹل پہنچا تو دو درجن کے قریب لوگ وہاں استقبال کے لیے موجود تھے۔‘

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے علاوہ بلاول بھٹو، شاہ زین بگٹی اور دیگر رہنماؤں سمیت وفد میں 13 افراد شامل تھے۔

مقامی صحافی نے بتایا کہ ’ہوٹل پہنچنے کے بعد وزیراعظم اور ان کا وفد لفٹ کے ذریعے کمروں میں چلے گئے اور پھر 20 منٹ کے وقفے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، شاہ زین بگٹی اور مریم اورنگزیب واپس ہوٹل کی لابی میں آئے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہوٹل کے عقبی جانب سے برقی گاڑیوں میں بیٹھے اور پروٹوکول کے لوگوں کے ہمراہ مسجد نبوی میں پیغمبر اسلام کے روضے پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔’

اس وقت نماز مغرب یعنی افطاری میں پندرہ منٹ باقی تھے، چونکہ روضہ رسول پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ جگہ ہے اس لیے مریم اورنگزیب ان برقی گاڑیوں کے بجائے پیدل چلتے ہوئے مسجد کی جانب آئیں اور ان کے ہمراہ شاہ زین بگٹی تھے۔

ذکا اللہ بتاتے ہیں کہ ’مسجد نبوی کی عمرہ فورسز سے منسلک کچھ سکیورٹی اہلکار بھی موجود تھے جو ہجوم میں ان کے لیے راستہ بنانے میں مدد کر رہے تھے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین موجود تھے۔ جیسے ہی لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ سکیورٹی کے ساتھ موجود کچھ لوگ ہیں تو کچھ نے اردگرد لوگوں نے پوچھا کہ کون آیا ہے اور پھر وہاں چور چور، ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگنے لگے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ `لیکن مریم اورنگزیب کو دیکھتے ہی لوگوں نے چور چور کے علاوہ انھیں ان ناموں سے پکارا جو سوشل میڈیا میں ان کی ہتک اور تمسخر میں ایک سیاسی جماعت کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت شاہ زین بگٹی مریم کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لوگوں نے ان کے بالوں کو کھینچا اور ان پر بھی مختلف جملے کسے۔‘

یہ معاملہ بھرپور نعرے بازی پر جا کر رکا، ماحول کشیدگی اختیار کر چکا تھا جبکہ ارد گرد موجود ہزاروں لوگوں کے افطار کے لیے دستر خوان بچھے ہوئے تھے۔

مقامی صحافی نے بتایا کہ ’افطار سے چار پانچ منٹ پہلے ماحول میں کشیدگی اور نعرے بازی تھمی۔ ہم سمیت بہت سے لوگوں نے نعرے بازی کرنے والوں کو کہا کہ دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو مسجد کا تقدس پامال مت کرو۔ یہ ادب کی جگہ ہے ادب سے آگے بڑھو، یہ دیکھو کہ تم کھڑے کہاں ہوں، پلیز ایسا نہ کرو۔‘

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے اتحادی وزرا کے خلاف نعرے بازی کرنے والوں میں خواتین شامل نہیں تھیں۔

فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس سارے واقعے کے دوران سیاہ برقعے میں ملبوس مریم اورنگزیب نے جملے اور آوازیں کسنے والوں کو کوئی جواب نہیں دیا اور مسکراتے ہوئے چلتی رہیں۔ پھر افطاری ہوئی اور دس منٹ کے لیے نماز کا وقفہ ہوا۔

وزیراعظم نے اپنے وفد کے ہمراہ روضہ رسول پر حاضری دی اور نماز ادا کرنے کے بعد برقی گاڑی میں دوبارہ ہوٹل لوٹ آئے۔

مریم اورنگزیب ہوٹل دارالامان کی لابی میں گئیں تو وہاں موجود مرد و خواتین نے ان سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ جس جگہ موجود ہیں یہاں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

خالد رانا مسلم لیگ ن سے منسلک ہیں اور وہ بھی اس واقعے کے عینی شاہدین میں شامل ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا پہلے کبھی حرم میں ایسا واقعہ ان کی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ پیش آیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے یہاں آ رہے ہیں۔ پہلے بھی کبھی کہیں سے گزرتے ہوئے کبھی حمایت اور کبھی مخالفت میں پاکستانیوں کے نعرے سنائی دیتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ گزشتہ شام کے واقعے کے بعد ہوٹل کے اندر سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ ’ہم نے مسلح سکیورٹی اہلکاروں کو بہت کم مسجد نبوی میں دیکھا ہے۔ لیکن اس واقعے کے باعث مسلح سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ وہاں دارالامان ہوٹل کی لابی میں پاکستانی وزیراعظم سے ملنے کے لیے بہت لوگ تھے لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے بہت اچھے انداز میں ان لوگوں کو باہر بھجوا دیا۔

خالد رانا نے مزید بتایا کہ آج وزیراعظم نے غزوہ احد کے مقام کا دورہ کیا اور مسجد نبوی میں جمعے کی نماز ادا کی اور آج کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔

اس واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو انھوں نے مسجد نبوی کی حدود میں دیکھا ہے۔

نعرے لگانے والوں کی تعداد کتنی تھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سینکڑوں نہیں تو درجنوں تو ضرور تھے۔ نوجوان جارحانہ انداز میں تھے اور میں نے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ورکروں کے درمیان تلخ کلامی بھی دیکھی گئی۔‘

مقامی صحافی کہتے ہیں کہ ’یہاں سکیورٹی کا قانون موجود ہے۔ لڑائی جھگڑا کرنے والوں کو مسجد میں موجود سکیورٹی اہلکار گرفتار تو کر سکتے ہیں لیکن ان پر تشدد نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ہنگامہ آرائی کی نوعیت کے لحاظ سے کم ازکم چھ ماہ قید اور ایک لاکھ ریال تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔‘

‘مریم اورنگزیب کا موقف ’میں نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی‘

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مخصوص لوگوں نے مسجد نبوی کا تقدس پامال کیا۔ ’ان کے لیڈر نے بدتمیری کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا۔‘

’میں نے درود شریف پڑھتے ہوئے ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ جو لوگ انھیں اکساتے ہیں، مجبور کرتے ہیں، جو لوگ اس کا جشن مناتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تو یہ افسوسناک ہے (اور میں نے) ان کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی۔‘

ان کا کہنا تھا ‘میں اس زمین کو سیاست کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ ہمارے کارکنان کو ہدایت دی گئی ہے کہ مکہ اور مدینہ کے احاطے میں ان کو دیکھ کر کوئی بدتمیزی نہ کریں۔ یہی فرق ہے ان لوگوں میں اور ہم میں۔‘

سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

میرو انصاری نے لکھا ہم بحیثیت قوم شرمندہ ہیں۔ خیام حسین نے لکھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسی سیاست ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس نے نوجوانوں کے دماغ تباہ کر دیے ہیں۔

عمر خلیل گجر نے لکھا ’آج میرا دل مدینہ کی ویڈیو دیکھ کر رو رہا ہے۔ رسول نے اقدار، امن اور برداشت کا سبق اپنی پوری زندگی دیا تھا۔‘

بہت سے ٹویٹر صارف مریم اورنگزیب کی جانب سے اس سارے واقعے پر صبر کا مظاہرہ کرنے پر ان کو داد دے رہے ہیں۔ معروف مصنفہ نورالہدیٰ شاہ جو سعودی عرب میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں کو ایک پیغام دیتی ہیں۔

’آپ کی سوچ اورحجاج بن یوسف کےعمل میں کیا فرق ہے؟ حجاج بھی اپنےعمل کو صحیح سمجھتے ہوئے کعبہ پرمنجنیقیں برسانے کو درست سمجھتا تھا کیونکہ وہاں مخالفین پناہ لیے ہوئے تھے۔ مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھ کر3 دن مدینے میں مخالفین کو اپنی دہشت سے لرزاتا رہا۔ حجاج کی طرح آپ بھی مدینےمیں دہشت پھیلانے کو صحیح سمجھتے ہیں!‘

اپنا تبصرہ بھیجیں