بھارت: عید پر بھی فرقہ وارانہ تشدد اور کرفیو کے سبب عید کی نماز نہ ہو سکی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارتی ریاست راجستھان کا شہر جودھ پور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پر تشدد ہنگامہ آرائی کی وجہ سے عیدگاہ میں نماز نہ ادا کی جا سکی۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں عید سے قبل ہی کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے تمام عبادت گاہیں بند ہیں۔

جودھ پور اس وقت سخت سکیورٹی کے حصار میں ہے، جہاں حکام نے عید کے موقع پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد سخت ترین پابندیاں عائد کی ہیں اور انٹرنیٹ و موبائل فون سروسز کو معطل کر دیا گیا ہے۔

بندشوں کی وجہ سے جودھ پور کی عیدگاہ میں عید کی نماز کی اجازت نہیں دی گئی اور بعض مساجد میں پولیس کے سخت پہرے میں بڑی مشکل سے نماز ادا کی جا سکی۔ حکام کے مطابق حالات اب بھی بہت کشیدہ ہیں تاہم اب کنٹرول میں ہیں۔ 

 معاملہ کیا ہے؟

 جودھ پور میں پیر کی رات دیر گئے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس وقت تصادم شروع ہوا، جب عید گاہ میں پرچم لہرانے کے حوالے سے ان کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا۔ عید کے موقع پر ہی ہندوؤں کا پرشو رام نامی ایک تہوار بھی ہے اور اسی مناسبت سے چاند رات کو ہندوؤں نے اسی مقام پر اپنی مذہبی شناخت کا ایک پرچم نصب کر دیا، جہاں صبح عید کی نماز ادا ہونی تھی۔

مسلمانوں نے اس پرچم کو ہٹا کر اپنا سبز جھنڈا نصب کیا اور اس طرح دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوا، جو پر تشدد رنگ اختیار کر گیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ پیر کی رات تقریبا سوا گیارہ بجے پیش آیا۔
امن عامہ سے متعلق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہوا سنگھ کا کہنا تھا، “جہاں نماز پڑھی جاتی ہے اس علاقے کے قریب بھگوان پرشورام کے پرچم نصب کیے گئے تھے۔ جھنڈوں کو ہٹانے کے بارے میں تنازعہ تھا کیونکہ عید کے موقع پر وہاں مقامی مسلم برادری اپنا پرچم نصب کرتی ہے۔”

تعاون کی اپیل

اس تنازعے کی ابتدا پیر کی رات کو ہوئی تاہم منگل کے روز بھی حالات کافی خراب رہے اور بڑی تعداد میں فورسز کو تعینات کرنا پڑا۔ جودھ پور سے تعلق رکھنے والے ریاست کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، “جودھ پور مارواڑ کی محبت اور بھائی چارے کی روایت کا احترام کرتے ہوئے، میں تمام فریقین سے امن برقرار رکھنے اور امن و امان کی بحالی میں تعاون کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔”

مدھیہ پردیش میں کرفیو

ادھر ریاست مدھیہ پردیش میں حکام کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر کھرگون میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تشدد زدہ شہر میں عید الفطر اور اکشے ترتیا جیسے تہوار گھر کے اندر ہی منائیں۔

کھرگون میں 10 اپریل کو رام نومی کے جلوس کے دوران زبردست تشدد ہوا تھا، جہاں سکیورٹی کو مزید سخت کرنے کے ساتھ ہی عید کے دن شہر کے تمام مذہبی مقامات کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد کی ابتدا

مدھیہ پردیش کے کھرگون میں 10 اپریل کو فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا تھا، جس میں درجنوں دکانوں اور مکانات کو نقصان پہنچا تھا۔ بہت سی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا اور شدید پتھراؤ بھی ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے ہی درجنوں مکانات اور دکانیں بطور سزا مسمار کر دی تھیں۔

مسلم مخالف فسادات میں اضافہ

راجستھان میں ہونے والی یہ تازہ جھڑپیں ملک بھر میں بڑھتی فرقہ واریت اور کشیدگی کا ایک حصہ ہیں، جو ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے سیاسی رہنماؤں اور بعض سخت گیر ہندو تنظیموں کی سرکردہ شخصیات کی نفرت انگیز تقاریر کا نتیجہ ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہلی، گجرات، مدھیہ پردیش، جھار کھنڈ اور مغربی بنگال جیسی متعدد ریاستوں میں ایسے مسلم مخالف فسادات کثرت سے دیکھنے میں آئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان فسادات پر حکومت نے جس طرح قابو پانے کی ناکام کوششیں کی ہیں اس پر کئی حلقوں نے سوال اٹھایا ہے۔

مودی کی خاموشی

خاص طور پر ان معاملات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے جس پر بہت سے دانشوروں نے نکتہ چینی کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی سرکردہ شخصیات نے مودی کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ وہ ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی 2014 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی،  سماج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔

مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں اور وہ آئے دن مساجد اور مسلمانوں کی دیگر املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں