بھارت: ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی پر خالصتان کے پرچم لگا دیے گئے

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی پر سکھ علیحدگی پسندوں کی تحریک خالصتان کا پرچم لگانے پر مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

اتوار کو ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑا میں واقع اسمبلی کے مرکزی دروازے اور دیواروں پر زرد رنگ کے پرچم لگے ہوئے نظر آئے جب کہ اسمبلی کی سفید دیواروں پر سبز رنگ سے چاکنگ بھی کی گئی تھی۔ حکام نے فوری طور پر یہ پرچم اتار دیے تھے۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق ضلع کانگڑا کی انتظامیہ نے تحقیقات کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) بنائی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ہفتے اور اتوار کی شب یہ کارروائی کی گئی تھی۔

بھارت کے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق سکھ فار جسٹس نامی کالعدم تنظیم نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس تنظیم کے بانی گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک ای میل میں کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خالصتان کے قیام کا اعلان ہونے کے 36 برس مکمل ہونے کے دن کی یاد منانے کے لیے پر یہ اقدام کیا ہے۔

انہوں نے یہ ای میل صحافیوں اور حکومت کی اعلیٰ شخصیات کو ارسال کی ہے۔

اس کارروائی کے بعد ریاست ہماچل میں تمام شاہراہوں پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی جب کہ کئی مقامات پر ریاست کی سرحد کو بند بھی کیا گیا ہے۔

پولیس نے ریاست بھر میں ڈیموں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں، سرکاری عمارات اور دیگر تنصیبات کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی ہے۔

حکام نے اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے اور اس میں بھارت میں کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو ہی نامزد کیا گیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ریاست کے وزیرِ اعلیٰ جے رام ٹھاکر نے اس واقعے کے حوالے سے کہا کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ممکنہ طور پر کارروائی نہیں ہو سکے گی کیوں کہ یہ اسمبلی بلڈنگ گزشتہ کئی ماہ سے بند ہے اور اس میں دسمبر اور رواں برس جنوری میں اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا تھا۔

اسمبلی کے باہر سیکیورٹی اہل کار موجود نہیں تھے جب کہ یہاں سیکیورٹی کے لیے کیمرے بھی نصب نہیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ہماچل پردیش کے وزیرِ اعلیٰ جے رام ٹھاکر نے اسمبلی کی عمارت پر خالصتان کا پرچم لگانے کو بزدلانہ عمل قراردیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ وہ رات کی تاریکی میں کی گئی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہیں۔

ہماچل پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس (ڈی جی پی) سنجے کندو کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) بنائی گئی ہے جس میں مختلف اداروں کے چھ ارکان شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی یہ تحقیقات بھی کرے گی کہ اس کارروائی میں اندرون اور بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے کون سے عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔

پولیس افسر کے مطابق سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) نے چھ جون کو خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے جب کہ ہماچل پردیش کی پڑوسی ریاستوں میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کے بعد ممکنہ طور پر یہ واقعہ بھی ان کارروائیوں کی کڑی ہو سکتی ہے۔

قبل ازیں ریاست ہماچل پردیش میں اپریل کے آغاز میں بھی خالصتان کے حوالے سے ایک بینر آویزاں کیا گیا تھا۔

کانگڑا کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) نے ’ہندوستان ٹائمز‘ کو بتایا کہ ممکن ہے کہ خالصتان کے حامی سیاحوں کی صورت میں ہماچل پردیش میں داخل ہوئے ہوں اور رات کی تاریکی میں اسمبلی کی عمارت پر یہ پرچم لگا دیا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے اسمبلی کی عمارت پر خالصتان کا پرچم دیکھ کر پولیس کو آگاہ کیا۔

دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے ریاست میں بی جے پی کی حکومت کو اس واقعے کے لیے ذمہ دار قرار دیا ہے۔

کانگریس نے اس واقعے پر شملہ میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس مظاہرے سے خطاب میں کانگریس کے ریاستی صدر پراتیبھا سنگھ نے سوال اٹھایا کہ اسمبلی کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے کیوں نصب نہیں کیے گئے تھے اور کیا وجہ تھی کی عمارت کی سیکیورٹی کے لیے اہل کار بھی مطلوبہ تعداد میں موجود نہیں تھے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں