بھارت: نیٹو کے ہتھیار کشمیری عسکریت پسندوں تک کیسے پہنچ رہے ہیں؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) افغان عسکریت پسندوں اور امریکی فوج کے زیر استعمال ہتھیار بھارت کے زیر انتظام کشمیر پہنچ رہے ہیں۔ اس سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

بھارتی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) اس بات کی تفتیش کررہی ہے کہ 13مئی کو جموں و کشمیر کے کٹرہ قصبے میں ایک بس پر ہونے والے حملے میں انتہاپسندوں نے ‘اسٹکی بم’ کا استعمال تو نہیں کیا تھا؟ اس حملے میں چار افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

تفتیشی ایجنسیوں کو شبہ ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے پاس اسٹکی بم (Sticky Bomb) یا ‘چپکُو بم‘ پہنچ چکا ہے۔ اگر یہ خدشہ درست ہے تو کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف مہم میں یہ ایک نئی بات ہوگی۔

جموں و کشمیر فریڈم فائٹرز ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بارے میں ابھی زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ اسی تنظیم نے 13مئی کے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور دعوٰی کیا تھا کہ اس نے اسٹکی بم کا استعمال کیا۔

اسٹکی بم ایک طرح کا آئی ای ڈی بم ہوتا ہے جسے کسی چلتی ہوئی گاڑی پر چپکا کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ دھماکہ کیا جاسکتا ہے۔

اسٹکی بم کہاں سے آئے

کشمیر میں عام طورپر اسٹکی بم نہیں دیکھے گئے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ برس فروری میں این آئی اے نے ایک چھاپے میں ایسے درجنوں بم برآمد کیے تھے۔ یہ بم بالعموم افغانستان میں عسکریت پسند جنگ کے دوران نیٹو کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی علاقے میں ان کا ملنا اچھی خبر نہیں ہے۔

بھارتی حکام نے دعوی کیا ہے کہ انہیں ایسے بہت سے ہتھیار ملے ہیں جن پر امریکی مہر لگی ہے۔ شمالی پاکستان سے ملحق افغانستان کی سرحد بھارتی کشمیر سے بہت قریب ہے۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ اسی راستے سے انتہاپسند بھارتی علاقے میں دراندازی کرتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان اس الزام کی مسلسل تردید کرتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی پُرتشدد سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ کشمیری مجاہدین آزادی کی صرف سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔

کشمیر میں نیٹو کے ہتھیار

گزشتہ برس اگست میں نیٹو کا افغانستان سے اچانک انخلا عمل میں آیا۔ بھارتی فوج کو اس کے بعد سے بھارتی کشمیر میں امریکی ساخت ایم 4 کاربائن رائفلیں ملی تھیں۔ یہ رائفل کشمیر میں تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے چار عسکریت پسندوں کے پاس سے برآمد ہوئی تھیں۔

ایسے ویڈیوز بھی سامنے آئے ہیں جن میں عسکریت پسند ایم 249 آٹو میٹک رائفل،509 ٹیکٹیکل گن، ایم 1911 پستول اور ایم 4 کاربائن جیسے ہتھیار اٹھائے ہوئے دکھائی دیے تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً ایک درجن ایریڈیم سیٹیلائٹ فون اور وائی فائی پر مبنی تھرمل ایمیجری ڈیوائس بھی ملے تھے جس سے عسکریت پسندوں کو رات کے وقت حملے کرنے میں مدد ملی ہوگی۔ یہ وہی ہتھیار ہیں جو امریکی فورسز افغانستان میں استعمال کررہی تھیں۔

افغان جنگ کے کشمیر پر اثرات

بھارتی فوج کے میجر جنرل اجے چاندپوریا نے فروری میں کہا تھا کہ امریکی ساخت جدید ترین ہتھیار افغانستان کے راستے بھارت پہنچ چکے ہیں۔ چاندپوریا نے بھارتی میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ”ہمیں جو ہتھیار اور سازو سامان ملے ہیں، ان سے ہمیں احساس ہوا ہے کہ امریکی جو جدید ہتھیار افغانستان میں چھوڑ گئے تھے وہ اب اس طرف آرہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہتھیار تو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پاس حال ہی میں تصادم کے دوران ملے ہیں۔‘‘

بھارتی فوج کے ایک سینیئراہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی ہتھیاروں کے کشمیر میں ملنے کی انکوائری کی جارہی ہے۔ اس افسر نے کہا،”کابل کے طالبان کے ہاتھوں میں چلے جانے کا بھارتی علاقے کی سکیورٹی کی صورت حال، بالخصوص کشمیر پر کافی اثر ہوا ہے۔ سن 1989 میں جب سوویت یونین کی فوج افغانستان چھوڑ کر گئی تھی اس وقت افغان جنگجو کشمیر پہنچ گئے تھے۔ ہم کچھ اسی طرح دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن بھارتی فوج اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں