بھارت: قطب مینار پر بھی سخت گیر ہندوؤں کا دعویٰ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) مرکزی وزارت ثقافت کے سکریٹری نے دو روز قبل قطب مینار کا دورہ کیا تھا، اور پھر یہ خبر عام ہو گئی کہ یہ جاننے کے لیے اس کے آس پاس جلد ہی کھدائی کی جانے والی ہے کہ آيا قطب مینار بھی ایک ہندو مندر تو نہیں ہے۔

بھارت میں سخت گیر ہندو قوم پرستوں کی جانب سے اب یہ دعویٰ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ دارالحکومت دہلی میں واقع تاریخی عمارت قطب مینار در اصل ایک مندر تھا اور اسے قطب الدین ایبک کی بجائے ایک ہندو راجہ نے تعمیر کروایا تھا۔ قوم پرست ہندو اسے قطب مینار کی بجائے، ‘وشنو استمب’ کا نام دیتے ہیں اور اس کی تصدیق کے لیے وہاں پر کھدائی کا بھی امکان ہے۔

لیکن اتوار کے روز مودی مرکزی حکومت نے البتہ وضاحت کی کہ ابھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مرکزی وزیر ثقافت جی کے ریڈی نے کہا ہے کہ معروف قطب مینار کمپلیکس میں کھدائی سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، اس لیے اس حوالے سے میڈیا کی رپورٹ درست نہیں ہیں۔

تاہم وزیر ثقافت نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ آیا حکومت مستقبل میں ایسا کرنے والی ہے یا نہیں، البتہ انہوں نے صرف اتنا کہا، ”ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

اس سے قبل حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر عام ہو گئی تھی، کہ مرکزی حکومت نے قطب مینار کے کمپلیکس میں موجود مورتیوں کی نقش نگاری کروانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور قطب مینار کے جنوب میں واقع مسجد قوت الاسلام سے 15 میٹر کے فاصلے پر بہت جلد کھدائی شروع کی جا سکتی ہے۔

ان خبروں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس جائزے کے لیے کہ آیا قطب مینار بھی کسی مندر کا حصہ تھا یا نہیں، اس کا پتہ لگانے کے لیے بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی شروع کرنا تھی اور پھر وزارت ثقافت کو اپنی رپورٹ دینا تھی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

گزشتہ سنیچر کے روز وزارت ثقافت کے سکریٹری گووند موہن نے اچانک قطب مینار کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد ہی حکومتی ذرائع سے یہ خبر عام ہو گئی کہ محکمہ آثار قدیمہ کو یہ معلوم کرنے کے لیے کھدائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ آیا قطب مینار کو قطب الدین ایبک نے تعمیر کیا تھا یا ہندو راجہ چندرگپت وکرمادتیہ نے؟ تاہم وزارت کا اصرار ہے کہ یہ ایک معمول کا دورہ تھا اور ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

دنیا کے تمام مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ قطب مینار کو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں دہلی کے پہلے مسلم حکمراں قطب الدین ایبک نے تعمیر کروایا تھا۔ تاہم بھارت کے سخت گیر نظریات کے حامل ہندو قوم پرست یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں، کہ اسے ایک ہندو راجہ نے پانچویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔

بھارت کی ہندو قوم پرست تنظیمیں لال قلعہ، جامع مسجد اور تاج محل جیسی مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ دیگر بہت سی تاریخی عمارتوں اور مساجد پر بھی اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ بضد ہیں کہ ان سب پر ہندوؤں کا قبضہ ہونا چاہیے۔

حال ہی میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک مقامی سابق ڈائریکٹر دھرم ویر شرما نے پھر سے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ قطب مینار سورج کی سمت کا پتہ کرنے کے لیے ہندو راجہ وکرمادتیہ نے تعمیر کیا تھا۔ اسی کے بعد یہ تنازعہ پھر سے ابھر کو سامنے آ گیا۔

اس سلسلے میں دہلی کی ایک عدالت میں حال ہی میں ایک کیس بھی درج کیا گیا ہے، جس نے گزشتہ ماہ محکمہ آثار قدیمہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ آئندہ احکامات تک قطب مینار کے احاطے میں رکھی گئی بھگوان گنیش کی دو مورتیوں کو نہ ہٹائے۔

ایک وکیل ہری شنکر جین نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ محمود غزنوی کی فوج کے ایک جنرل قطب الدین ایبک نے 27 مندروں کو جزوی طور پر مسمار کر دیا تھا، اور پھر وہاں پر مسجد قوت الاسلام کو تعمیر کیا تھا۔

رواں ماہ ہی سخت گیر ہندوؤں کے گروپوں کے 44 ارکان کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب انہوں نے قطب مینار کمپلیکس کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھا اور قطب مینار کا نام بدل کر ’’وشنو استمب‘‘ رکھنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس کاکہنا تھا کہ انہیں عارضی طور پر حراست میں لیا گیا کیونکہ وہ علاقے کی ٹریفک میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں