سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے قتل کا منصوبہ ساز عراقی شہری گرفتار

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایف بی آئی نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے ایک عراقی شہری کو گرفتار کیا ہے۔ یہ شخص سن 2003 میں عراق کے خلاف صدر بش کے شروع کردہ جنگ سے ہونے والی اموات اور نقصانات کا انتقام لینا چاہتا تھا۔

امریکی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے منگل کے روز مذکورہ عراقی شہری کو گرفتار کیا اور اس کے خلاف اوہائیو کے کولمبس میں واقع وفاقی عدالت میں کیس درج کرایا ہے۔

اگر یہ شخص قصوروار پایا جاتا ہے تو اسے 30 برس تک کی قید اور پانچ لاکھ ڈالر تک کے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

ایف بی آئی کا کیا کہنا ہے؟

ایف بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ عراقی شہری نے ایف بی آئی کے ایک مخبر کو بتایا تھا کہ وہ میکسیکو سے چار دیگر عراقیوں کو غیر قانونی طورپر امریکہ لانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ قتل کو انجام دینے میں اس کی مدد کرسکیں۔

عدالت میں پیش کردہ شکایت کے مطابق اس عراقی شہری کا کہنا تھا کہ وہ بش کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ “بش ہی بہت سارے عراقیوں کی ہلاکتوں اور پورے ملک میں تباہی پھیلانے کے لیے ذمہ دار ہیں۔”

بش انتظامیہ نے عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام لگاکر سن 2003 میں اس پر فوجی حملہ کردیا تھا، حالانکہ بعد میں یہ دعوی بالکل غلط ثابت ہوا۔

ایف بی آئی نے کہا کہ سازش کرنے والے شخص نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے نام نہاد “داعش”گروپ سے رابطے تھے۔ اس نے ٹیکساس کے ڈلاس میں بش سے متعلق مقامات کی مبینہ طورپر نگرانی کی اور ایف بی آئی کے مخبر کے ساتھ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے بندوق، سکیورٹی اہلکاروں کے یونیفارم اورگاڑیاں حاصل کرنے کے طریقہ پر مشورے کیے تھے۔ ایف بی آئی کا تاہم کہنا ہے کہ یہ منصوبہ عمل درآمد تک پہنچنے میں ناکام ہوگیا۔

ایف بی آئی کے مطابق 52 سالہ عراقی شہری ستمبر 2020 میں وزیٹرز ویزا پر امریکہ آیا تھا اور ویزا کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مارچ 2021 میں پناہ کی درخواست دی تھی۔ پناہ کی درخواست دینے کے فوراً بعد ہی ایف بی آئی کے مخبروں نے اس سے رابطہ قائم کرلیا تھا جو کہ اس ماہ تک برقرار رہا۔

جنگِ عراق کی تباہی سے ناراضگی

عراق کے خلاف جنگ شروع کرنے کے سابق صدر بش کے فیصلے کی بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور ملک افراتفری سے دوچار ہوگیا۔ جنگ کے نتیجے میں صدام حکومت ختم ہوگئی لیکن اس میں بڑے تعداد میں امریکی فوجی بھی مارے گئے جبکہ لاکھوں عراقی شہری ہلاک ہوئے۔

بش کے تئیں غصہ اور نفرت کی علامت کے طورپر سن 2008 میں ایک صحافی نے سابق امریکی صدرپر اس وقت اپنا جوتا پھینک مارا تھا جب وہ اپنے عہدہ صدارت کے اختتام سے ذرا قبل عراق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ صحافی نے جوتا پھینکتے ہوئے کہا تھا،” کتے، یہ عراقی عوام کی جانب سے تمہارے لیے الوادعی بوسہ ہے۔” یہ جملہ اس وقت کافی مشہور ہوا تھا۔

گزشتہ ہفتے ڈلاس میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے بش کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے عراق جنگ کو “ظالمانہ”قرار دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں