نائجیریا: بوکو حرام نے پاکستانی نوجوان کو یرغمال بنا لیا، اہلخانہ کی حکومت سے مدد کی اپیل

ابوجا + لاہور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) افریقہ کی عسکریت پسند تنظیم بوکو حرام کے ہاتھوں اغوا ہونے والے پاکستانی شہری ابوذر محمد افضل کے اہل خانہ نے حکومت پاکستان اور بین الاقوامی برادری سے مدد کی درخواست کی ہے۔ بوکو حرام نے سات دن کی مہلت دی ہے۔

ابوذر کو درجنوں نائجیرین شہریوں کے سمیت اٹھائیس مارچ کو اس وقت اغوا کیا گیا، جب وہ نائجیریا کے شہر ابوجا سے کسی دوسری جگہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ ابو ذر کے فیملی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں ابوجا اور کڈونا کے درمیان ریلوے ٹریک پر دھماکہ کرنے کے بعد اغوا کیا گیا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1529790922107461633?t=MAwdHyooSqxappZGk70Xeg&s=19

واضح رہے کہ بوکو حرام اس طرح کی وارداتیں پہلے بھی کرتی رہی ہے۔

سات دن کی مہلت

ابوذر کے ماموں سانول شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بو کو حرام نے چوبیس مئی کو ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں انہوں نے حکومت نائجیریا کو سات دن کی ملہت دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عسکریت پسند تنظیم کے گرفتار کمانڈوز کو رہا کیا جائے۔ ورنہ مغویوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مہلت کا سن کا فیملی سکتے کی سی کیفیت میں ہے، ”میں نے مختلف لوگوں سے نائجیریا میں بات کی، تو مجھے بتایا گیا کہ صرف گزشتہ کچھ مہینوں میں اس عسکریت پسند تنظیم نے تین ہزار سے زائد افراد کو اغوا کیا ہے۔‘‘

’وہ واپس آنا چاہتا تھا‘

ابوذر کی والدہ فرحت افضل شدت غم سے نڈھال ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مختصرا بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ”میرا بیٹا اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کا نائجیریا میں دل نہیں لگتا اور یہ کہ وہ واپس آنا چاہتا ہے۔ ہم بھی اس سے دور نہیں رہنا چاہتے تھے لیکن معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ہمارا بیٹا وہاں گیا تاکہ فیملی کے معاشی حالات بہتر ہوں۔‘‘

بوکو حرام کا نام خوف کی علامت

ابوذر کے والد محمد افضل شیخ کا کہنا ہے کہ بوکو حرام کا نام سن کا گھر والے بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پہلے ہمیں اس تنظیم کے بارے میں معلوم نہیں تھا لیکن جب ہمیں اس تنظیم کے بارے میں پتہ چلا تو ہم پر خوف طاری ہو گیا۔ ابو ذر کی والدہ سے ہم نے یہ بات کئی دن چھپائے رکھی لیکن جب سے انہیں پتہ چلا ہے، ان پر غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔‘‘

ابوذر کے والد کا کہنا تھا کہ تینتیس سالہ ابوذر کے دو بچے ہیں، ”ایک بیٹا ڈھائی سالہ اور بیٹی تقریبا ایک برس کی ہے۔ اس نے اپنی بیٹی کو ابھی دیکھا بھی نہیں ہے۔ اس کی بیوی کی بھی بری حالت ہے، جب کہ پورے خاندان میں اس کی بازیابی کے لیے دعائیں ہو رہی ہیں۔‘‘

مصائب کا سفر

محمد افضل کا کہنا تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنا پیٹ کاٹ کر انہوں نے ابوذر کو پڑھایا ہے، ”ہم پنجاب کے ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے اور 2009 میں سب کچھ بیچ کر ملتان میں منتقل ہوئے۔

ابوذر نے بڑی محنت سے مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی کیا اور گھر کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے نائجیریا گیا، جہاں اسے ایک کمپنی میں جنرل مینیجر کی نوکری کی پیشکش ہوئی۔ دوسال سے وہ ہی گھر کا واحد کفیل ہے جب کہ میں ایک چھوٹی سی کریانہ کی دوکان چلاتا ہوں، جس میں کوئی خاص آمدنی نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان پر پہلے ہی مصبیتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے ہیں، ”ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے ایک بیٹے کا حادثے میں ہاتھ ٹوٹ گیا ہے۔ ابھی ہم اسی کے حوالے سے پریشان تھے کہ اب ہم پر یہ نئی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔‘‘

حکومت سے اپیل

محمد افضل شیخ کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے ایک افسر نے کل رابطہ کر کے تسلی دلائی ہے، ”لیکن ہمارے لیے ایک ایک لمحہ قیامت ہے۔ مہلت کا ایک دن گ‍زر گیا ہے۔ ہم وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر فوری طور پر ہماری مدد کریں اور نائجیرین حکومت سے فوری رابطہ کریں اور ان کی بازیابی کی کوشش کریں۔ ہم بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں ہمارے مدد کرے۔‘‘

بوکو حرام کون ہے؟

نائجیریا کے انتہائی شمال مشرق میں انتہاپسند سوچ کی حامل بوکو حرام کے نزدیک مغربی اقدار، سوچ، فکر اور تعلیم حرام ہے۔ ہاؤسا زبان میں بوکو حرام کا بھی یہی مطلب نکلتا ہے۔ شہر میڈُوگُوری میں طالبان کی طرز کے اِس گروپ کی سرگرمیاں سن 2002ء میں شروع ہوئی تھیں۔ اِس سے پہلے شمالی نائجیریا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں اِس گروپ نے نائجر کے ساتھ ملنے والی سرحد پر ایک کیمپ قائم کیا تھا، جہاں سے اِس کے ارکان پولیس پر حملے کرتے تھے۔ حکام کے مطابق اِس گروپ کے ارکان مختلف ناموں سے سن 1995ء سے سرگرم چلے آ رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں