اسرائیلی فوج نے ’جان بوجھ کر‘ صحافی شیریں ابو عاقلہ کو نشانہ بنایا، فلسطینی حکام

غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) الجزیرہ کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کی ہلاکت کے حوالے فلسطینی حکام کی تفتیش کا نتیجہ ہے کہ شیریں کو اسرائیلی فوجیوں نے جان بوچھ کر نشانہ بنایا۔

اسی ماہ غربِ اردن میں اسرائیلی کارروائی کے دوران شیریں ابو عاقلہ گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھیں۔

اپنی تفتیش کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس واقعے میں گولی صرف اسرائیلی فورسز کی جانب سے چلائی گئی اور اس کا مقصد ہلاک کرنا تھا۔

ادھر اسرائیلی وزیرِ دفاع نے اس رپورٹ کو مستردکرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی اپنی تفتیش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے فلسطینی عسکریت پسندوں نے شیریں کو گولی ماری ہو۔

تاہم شیریں جس ادارے کے لیے کام کر رہی تھیں، اس ادارے یعنی الجزیرہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ 51 سالہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے ‘جان بوجھ کر’ گولی ماری ہے۔ الجزیرہ کے پروڈیوسر کو بھی گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔

الجزیرہ کی مشہور صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے شہر جنین میں اسرائیلی کارروائی کو کور کرنے کے لیے وہاں پہنچی تھیں۔ الجزیرہ کے مطابق 11 مئی گولی لگنے کے کچھ دیر بعد ہی شیریں کی موت ہو گئی۔ اس کے علاوہ ایک فلسطینی صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔

عینی شاہدین کا بھی یہی کہنا تھا کہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے گولی ماری تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک یہ نتیجہ نہیں نکال سکے کہ گولی کہاں سے آئی کیونکہ فلسطینی حکام نے گولی کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی یا مشترکہ تفتیش کی پیشکش قبول نہیں کی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک فوجی کے ہتھیار کی نشاندہی کی ہے جس سے ممکن ہے یہ گولی چلائی گئی ہو مگر گولی کا جائزہ لیے بغیر یہ بات مکمل یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔

غرب اردن کے شہر رام اللہ میں فلسطینی اٹارنی جنرل اکرم الخطیب نے کہا کہ شیریں ابو عاقلہ کو لگنے والی گولی 5.56 ایم ایم کی گولی تھی جس میں ایک سٹیل کا حصہ ہے جو کہ نیٹو فوج کے زیرِ استعمال ہے۔

انھوں نے کہا کہ فلسطینی حکام اسرائیلیوں کو گولی نہیں دیں گے اور نہ ہی اس کی کوئی تصویر شائع کی جائے گی۔ ماضی میں فلسطینی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیلی تفتیش کاروں پر اعتماد نہیں کرتے۔

جس وقت یہ واقعے پیش آیا اس وقت شیری ابو عاقلہ نے ایک حفاظتی جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر واضح طور پر پریس لکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہیلمٹ بھی پہن رکھا تھا۔

اکرم الخطیب نے بتایا کہ فلسطینی تفتیش سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجی نے براہِ راست ان پر گولی چلائی اور اس وقت وہ وہاں سے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انھوں نے کہ گولیوں کا تبادلہ نہیں ہو رہا تھا نہ ہی اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ ہو رہا تھا۔

اس کے علاوہ شیریں کو جہاں گولی لگی اس مقام کے قریب درختوں پر گولیوں کے نشانات کی اونچائی دیکھ کر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ گولی مارنے والا شخص جسم کے اوپر والے حصے کو نشانہ بنا رہا تھا تاکہ اس کا نشانہ بننے والا شخض زخمی نہیں ہلکہ ہلاک ہو۔ اس کے علاوہ گولی کی سمت کے حوالے سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ گولی اسرائیلی فوجیوں نے چلائی۔

51 سالہ ابو عاقلہ بیت المقدس میں پیدا ہوئیں اور 1997 میں الجزیرہ کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے اردن کی یرموک یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ تمام فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ انھوں نے سنہ 2008، 2009، 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کی تھی۔

اسرائیل نے حالیہ ہفتوں میں غربِ اردن میں مسلسل چھاپے مارے ہیں۔ یہ چھاپے اسرائیل کے اندر ہونے والے کئی حملوں کے جواب میں کیے جا رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر حملے فلسطین کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔ جینن میں پناہ گزین کیمپ ہیں اور اسے طویل عرصے سے انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں