علیحدگی پسند کشمیری رہنما یٰسین ملک کے فیصلے پر او آئی سی کی تنقید، بھارت کی تردید

ریاض + سرینگر (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اسلامی تعاون تنظیم کا کہنا ہے کہ یٰسین ملک سے متعلق بھارتی عدالت کا فیصلہ ‘منظم بھارتی تعصب اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم’ کا عکاس ہے۔ بھارت نے تنظيم کے بیان کو ناقابل قبول قرار ديا ہے۔

بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یٰسین ملک سے متعلق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے بیانات کو مستر کرتے ہوئے کہا ہے تنظیم کو کسی بھی طرح کی دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کرنا چاہیے۔

اسی ہفتے بھارت کی ایک عدالت نے یٰسین ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی، جس پر کشمیر میں شدید و غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جمعے کے روز او آئی سی نے بھارتی عدالت کے اس فیصلے کو مسلمانوں کے خلاف ’منظم بھارتی تعصب اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم‘ قرار دیا۔

تنظیم نے بھارت کے اس اقدام کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بتایا اور کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف بھارتی نظام انصاف کی تضحیک ہے بلکہ یہ بھارتی جمہوریت کے دعووں کو بھی قلعی کھولتا ہے۔

بھارت کا رد عمل

حالیہ مہینوں میں اسلامی تعاون تنظیم کشمیر کے حوالے سے بھارت کی پالیسیوں پر مسلسل نکتہ چینی کرتی رہی ہے اور حسب معمول بھارت انہیں مسترد کرتا آيا ہے۔ جمعے کی رات کو بھی ایک بار پھر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اپنے سخت رد عمل میں او آئی سی کے بیانات کو مسترد کر دیا۔

اس حوالے سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی میں انسانی حقوق کے محکمے نے یاسین ملک کے فیصلے سے متعلق جو بھی باتیں کہی ہیں وہ ’ناقابل قبول‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ این آئی اے کی عدالت نے یاسین ملک کو عدالتی دستاویزات کی بنیاد پر سزا سنائی ہے۔

ارندم باغچی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے او آئی سی کے بیانات، ’واضح طور پر یاسین ملک کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی خواہاں ہے اور ہم او آئی سی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے کسی بھی طرح سے درست قرار نہ دے۔‘

او آئی سی نے یاسین ملک اور کشمیر پر کیا کہا؟

بھارتی بیانات سے چند گھنٹے قبل ہی اسلامی تعاون تنظیم کے انسانی حقوق کے ونگ نے یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ’منظم بھارتی تعصب اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم‘ کی عکاسی کرتا ہے۔

او آئی سی کی انسانی حقوق کے ونگ کے مطابق، ’ يہ تنظيم بھارت میں ایک فرضی مقدمے کی بنیاد پر ممتاز کشمیری سیاست دان مسٹر یاسین ملک کو من گھڑت الزامات کے تحت غیر قانونی طور پر سزا سنائے جانے کی مذمت کرتی ہے۔‘

اس کے فوری بعد او آئی سی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ’معصوم کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی اس طرح کی صریح خلاف ورزیوں کا مقصد کشمیریوں کو ان کے جائز حق خود ارادیت سے محروم کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف بھارتی نظام انصاف کی تضحیک ہوتی ہے، بلکہ یہ جمہوریت کے دعووں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔‘

اس کے بعد او آئی سی نے اپنے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈل سے اس سلسلے میں کئی مزید ٹویٹس شیئر کیں اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ’اپنے حقوق کے حصول کے لیے کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو دہشت گردی قرار نہ دیا جائے۔‘

اس نے کہا کہ او آئی سی کا جنرل سکریٹریٹ بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ، ’تمام کشمیری رہنماؤں کو رہا کرے جو غیر منصفانہ طور پر قید میں ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ جموں و کشمیر میں جاری منظم ظلم و ستم کو روکے۔‘

یاسین ملک کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے تنظیم نے کہا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق لوگوں کو آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا جو حق حاصل ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔‘

او آئی سی نے اسی ماہ کی 16 تاریخ کو بھی سلسلہ وار ٹویٹس میں کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات پر یہ کہہ کر شدید نکتہ چینی کی تھی کہ بھارت خطہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ سے مداخلت کی بھی اپیل کی۔

اس وقت بھی بھارت نے تنظیم کے بیانات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ اس کے اندرونی معاملات مداخلت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں