تحریکِ طالبان پاکستان کا حکومتِ کے ساتھ مذاکرات میں 60 فیصد معاملات حل ہونے کا دعویٰ

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے سمیت اُن کے 60 فیصد مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جب کہ دیگر معاملات پر بات چیت جاری ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہنے والے قبائلی اضلاع کے روایتی جرگے کے رُکن حاجی بسم اللہ خان نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے پر اتفاقِ رائے کی تصدیق کی ہے۔

وائس آف امریکہ نے ٹی ٹی پی کی جانب سے ان دعووں پر ردِعمل جاننے کے لیے حکومت اور سیکیورٹی اداروں سے رابطہ کیا، لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی مؤقف جاری نہیں کیا گیا۔

شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) اور پاکستانی فوج کے درمیان گزشتہ ایک ماہ سے افغانستان میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس میں افغان طالبان بھی سہولت کار کا کر دار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے پیشِ نظر فریقین نے 30 مئی تک عارضی جنگ بندی کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مذاکرات میں شریک ٹی ٹی پی کے رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ان کے قیدیوں کی رہائی اور درج مقدمات کی واپسی سمیت 60 فی صد شرائط مان لی گئی ہیں۔

اُن کے بقول سابق قبائلی علاقوں سے پاکستانی فوج کی واپسی، قبائلی علاقوں کی پرانی حیثیت میں بحالی اور ٹی ٹی پی کو ایک مسلح تنظیم کے طور پر تسلیم کرنے اور انہیں اپنے علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دینے کے معاملات پر بات چیت جاری ہے۔

طالبان رہنما نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا اصرار ہے کہ آئینِ پاکستان کی اُن کے بقول غیر شرعی شقوں کا ٹی ٹی پی پر اطلاق ختم کرنے اور قبائلی علاقوں میں نظام عدل ریگولیشن نافذ کرنے پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔

طالبان ذرائع نے وی او اے اُردو کو مزید بتایا کہ قبائلی اضلاع کا صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کا فیصلہ واپس لینے، ڈرون حملوں کے مکمل خاتمے اور علاقے سے فوج کے مکمل انخلا کے معاملے پر بھی بات چیت جاری ہے۔

البتہ حالیہ عرصےمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے شدت پسند تنظیم کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس میں ملکی مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔

خیال رہے کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان نے چند روز قبل تصدیق کی تھی کہ پاکستانی فوج کے کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید مذاکرات کے سلسلے میں کابل آئے تھے اور اُن کی ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ حکومتِ پاکستان یا فوج نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔

روایتی جرگے کا مذاکرات میں کردار

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شریک روایتی جرگے کے رُکن حاجی بسم اللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔

حاجی بسم اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مفاہمت کو حتمی شکل دینے کے لیے قبائلی علاقوں کے سرکردہ رہنما جون میں کابل جائیں گے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کی اہم سرکاری عمارت میں ہونے والے اجلاس میں اعلٰی حکومتی اور عسکری عہدے داروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے قبائلی عمائدین کو آگاہ کیا۔

اُن کے بقول بیشتر قبائلی عمائدین نے قبائلی اضؒلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی مخالفت کرتے ہوئے پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ البتہ انضمام کی کوششیں کرنے والے ایک رُکن قومی اسمبلی سمیت سیاسی جماعتوں سے منسلک رہنماؤں نے انضمام برقرار رکھنے پر اصرار کیا۔

جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے حاجی بسم اللہ خان کی سربراہی میں متعدد قبائلی رہنماؤں نے فاٹا انضمام کو مسترد کرتے ہوئے 31 مئی کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ البتہ قبائلی رہنماؤں نے ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

پس منظر

پاکستانی طالبان کے ساتھ مصالحت اور مفاہمت کے لیے جنوبی وزیرستان کے دو مختلف قبائلی جرگوں کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہے اپریل کے آخری ہفتے میں ایسے وقت میں شروع ہوا تھا جب علاقے میں فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

ان دو جرگوں میں سے ایک میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ اور کالعدم شدت پسند تنظیم کے بانی کمانڈر ملا بیت اللہ محسود کے سسر اکرام الدین محسود بھی شامل ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے ان دو جرگوں میں شامل رہنماؤں کی کوششوں کے نتیجے میں کالعدم تنظیم نے یکم سے 15 مئی تک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

چند روز قبل کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں ایک اعلٰی سطحی وفد کابل پہنچا تھا جس نے اطلاعات کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور طالبان حکومت وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کی وساطت سے ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود سے مذاکرات کیے تھے۔ اس دوران ٹی ٹی پی نے جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کر دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں