بھارتی کشمیر: ایک اور حملے میں ہندو خاتون ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

سری نگر (ڈیلی اردو/ ڈوئچے ویلے) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رواں ماہ یہ ساتویں ٹارگٹ کلنگ ہے، جس میں تین پولیس اہلکار اور چار عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی ماہ ایک سرکاری ملازم کشمیری پنڈت کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کے خلاف دھرنا اب بھی جاری ہے۔

https://twitter.com/vivekagnihotri/status/1531546555408429065?t=LdaW17VhkuVrDqJz7a5_Rg&s=19

بھارت کے زیر انتظام خطے جموں و کشمیر میں 31 مئی منگل کے روز جنوبی ضلع کولگام کے گوپال پورہ میں واقع ایک اسکول کیمپس کے اندر ایک خاتون ٹیچر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق کشمیر میں ہدف بنا کر ہونے والے حملوں میں یہ ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔

مقامی پولیس نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ متاثرہ خاتون 36 سالہ رجنی بالا کا تعلق جموں کے سانبہ سیکٹر سے تھا، جو گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گئی تھیں۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکیں۔

پولیس بیان کے مطابق اس واقعے کے فوری بعد علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا اور عسکریت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔ بیان کے مطابق، ’’جو بھی شدت پسند اس میں ملوث ہیں، ان کی بہت جلد شناخت کر لی جائے گی اور انہیں ختم کر دیا جائے گا۔‘‘

اسی ماہ کی گیارہ تاریخ کو ضلع بانڈی پورہ میں ایک سرکاری ملازم کشمیری پنڈت راہول بھٹ کو بھی ہدف بنا کر فائرنگ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں میں خاص طور پر خوف و ہراس کا ماحول ہے اور وہ اپنی برادری کو وادی سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے مطالبے کے ساتھ کئی دنوں سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں۔

تین ہفتے سے جاری یہ دھرنا جنوبی ضلع اننت ناگ میں چل رہا ہے اور اسی سے متصل کولگام میں ٹارگٹ کلنگ کا یہ نیا واقعہ پیش آیا ہے۔

چند روز قبل ہی ایک خاتون فنکارہ امرین بھٹ کو بھی اسی طرح ہدف بنا کر گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ یہ تمام کارروائیاں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں نے انجام دیں تھیں اور منگل کی صبح ہی پولیس نے ان واقعات میں ملوث دو افراد کو تصادم میں ہلاک کرنے کا دعوی بھی کیا۔

گزشتہ ہفتے منگل کے روز ہی ایک آف ڈیوٹی پولیس کانسٹیبل سیف اللہ قادری کو بھی اسی طرح کی فائرنگ میں ہلاک کر دیا گا تھا، جبکہ ان کی نو سالہ بیٹی اسی واقعے میں زخمی ہو گئی تھیں۔ پولیس حکام نے اس کی ذمہ داری بھی عسکریت پسندوں پر عائد کی تھی۔

اس طرح رواں ماہ کشمیر میں یہ ساتویں ٹارگٹ کلنگ ہے، جس میں تین پولیس اہلکار اور چار عام شہری ہلاک اور بعض دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

بھارت میں ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں، جو سخت پالیسیاں اپنائی ہیں، اس سے تشدد میں کمی آئی ہے اور اب حالات معمول پر واپس آ رہے ہیں۔ تاہم ہند نواز دیگر سیاسی جماعتیں اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں۔

خاتون ٹیچر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیر میں حالات نارمل ہونے کے مودی حکومت کے “فرضی دعووں” پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ گہری تشویش کا باعث ہے۔

ایک اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ غیر مسلح شہریوں پر کیے گئے حالیہ حملوں کی ایک طویل فہرست کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس حوالے سے مذمت اور تعزیت کے الفاظ بالکل اسی طرح کھوکھلے ہیں، جیسے کہ حکومت کی یہ یقین دہانیاں کہ وہ حالات کے معمول پر آنے تک آرام سے نہیں بیٹھے گی۔

بھارتی حکومت نے سن 2010 میں خصوصی روزگار پیکیج کے ایک پروگرام کے تحت کشمیری پنڈتوں کو کشمیر میں سرکاری ملازمتیں دینی شروع کی تھیں۔ اس طرح کے چار ہزار سے زیادہ کشمیری پنڈت کشمیر کے مختلف حصوں میں ٹرانزٹ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

لیکن دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ان کے خلاف بھی تشدد شروع ہوا اور گزشتہ اکتوبر سے ہی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں سے بیشتر متاثرین باہر سے آنے والے مزدور اور کشمیری پنڈت ہیں، جو کام اور ملازمت کی تلاش میں کشمیر میں تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں