تحریک طالبان پاکستان اور حکومتِ کے درمیان ’جنگ بندی‘ کے باوجود جھڑپیں اور ہلاکتیں کیوں؟

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین مذاکرات اور غیر معینہ مدت تک جنگ بندی کے اعلان کے باوجود سکیورٹی فورسز نے دو روز قبل شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں کے قریب جانی خیل میں آپریشن کے دوران سات شدت پسند ہلاک کر دیے ہیں۔

یہ شدت پسند کون تھے اور ان کا تعلق کس گروپ سے تھا۔ کیا یہ ٹی ٹی پی کے کمانڈوز تھے یا کوئی دوسرا گروپ اس علاقے میں متحرک ہے اس بارے میں تفصیل آگے بیان کریں گے لیکن پہلے یہ بتاتے ہیں کہ یہ واقعات کہاں پیش آئے اور ان میں کون کون مارا گیا۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق دو مختلف واقعات میں سات شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور یہ کارروائیاں خفیہ اطلاعات پر کی گئیں۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ضلع بنوں کے قریب جانی خیل کے علاقے میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع تھی جس پر اس علاقے میں کارروائی کی گئی۔ اس کارروائی میں دونوں جانب سے شدید فائرنگ کی گئی۔ اس کارروائی میں پانچ شدت پسند مارے گئے ہیں اور ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ برآمد ہوا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ شدت پسند ایک عرصے سے اس علاقے میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔

سرکاری اہلکاروں نے بتایا ہے کہ دونوں جانب سے فائرنگ ایک گھنٹے تک جاری رہی اور جب فائرنگ بند ہوئی تو موقع پر پانچ شدت پسندوں کی لاشیں پڑی تھیں، جن میں سے ایک نے مبینہ طور پر خود کش دھماکے سے خود کو اڑایا۔

ہلاک ہونے والے شدت پسندوں میں نور رحمان عرف ضرار، خددیر کائی ولد میر سدے، مرتضیٰ ولد نصراللہ، فضل رحمان اور ایک کا نام معلوم نہیں ہو سکا، شامل تھے۔

دوسری کارروائی شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں ہوئی جہاں دو شدت پسندوں کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کیا گیا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ سکیورٹی اہلکار معمول کے گشت پر تھے، جب ان پر حملہ کیا گیا اور جوابی کارروائی میں حملہ آور ہلاک ہوئے۔

تعلق کس گروپ سے ہے؟

تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات تو ایک دو ماہ سے جاری ہیں اور عید الفطر سے پہلے سے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ بندی کے باوجود بھی یہ کارروائیاں ہو رہی ہیں؟

اس بارے میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن وہ اتنا جانتے ہیں کہ ان کا تعلق ان کی تنظیم سے نہیں۔

اس بارے میں سرکاری حکام نے بتایا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان شدت پسندوں کا تعلق طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ سے ہے جسے شوریٰ مجاہدین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

قبائلی علاقوں میں متحرک بیشتر گروپ ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے ہیں لیکن چند ایک گروپ اب بھی ٹی ٹی پی کی چھتری کے نیچے نہیں آئے، جن میں حافظ گل بہادر گروپ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک صادق نور گروپ بھی اس علاقے میں متحرک ہے جو بظاہر حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ منسلک ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ رویہ

شمالی وزیرستان میں شدت پسند تنظیموں میں طالبان کے حافط گل بہادر گروپ کی اپنی ایک اہمیت رہی ہے۔

اس قبائلی علاقے میں سنہ 2014 میں بڑا فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا جسے آپریشن ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس آپریشن سے پہلے حافظ گل بہادر گروپ حکومت کا حمایتی گروپ سمجھا جاتا تھا اور ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ گروپ طالبان کے اندر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے خلاف تھا۔

اس گروپ کے بارے میں تجزیہ کار یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ’گُڈ طالبان‘ تھے۔

حالیہ دنوں میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا تھا تو ان دنوں میں طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ بھی بات چیت کی خبریں سامنے آئی تھیں اور ایک خبر یہ بھی تھی کہ شمالی وزیرستان کی حد تک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی تھیں۔

یہ ذکر ہے گذشتہ سال اکتوبر کا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے بات چیت کی جا رہی ہے۔

اس میں ایک گروپ حافظ گل بہادر کا بھی تھا۔ خبر کچھ یوں سامنے آئی تھی کہ شمالی وزیرستان مسلح گروپ شوریٰ مجاہدین نے یکم اکتوبر سے علاقے میں 20 دن کے لیے فائر بندی کا اعلان کر دیا اور کہا کہ اگر حکومت کے ساتھ بات چیت میں کامیابی ہوئی تو فائر بندی میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

اس بیان کے بعد ٹی ٹی پی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ ان کی اپنے دھڑوں میں بات چیت جاری ہے۔ شوریٰ مجاہدین ٹی ٹی پی میں ضم نہیں ہوئے ہیں۔

اس جنگ بندی کے اعلان کے بارے میں ذرائع نے بتایا تھا کہ حافظ گل بہادر کے گروپ شوریٰ مجاہدین کے سرکردہ رہنما صادق نور اور صدیق اللہ نے فائر بندی کا فیصلہ کیا تھا۔

شمالی وزیرستان میں متحرک حافظ گل بہادر گروپ اس وقت منظر عام پر آئے جب حافظ گل بہادر نے بیت اللہ محسود کی سربراہی میں قائم کالعدم تنظیم تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

بیت اللہ محسود جب سنہ 2007 میں تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے تو اس وقت حافظ گل بہادر کو شمالی وزیرستان میں نائب امیر مقرر کیا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ حافظ گل بہادر کو ٹی ٹی پی کی پالیسیوں خاص طور پر پاکستان کے اداروں پر حملوں سے اختلاف تھا۔ حافظ گل بہادر افغانستان میں روس کے حملے کے بعد مجاہدین کے ساتھ جنگ کا حصہ تھے۔

حافظ گل بہادر بنیادی طور پر اتمانزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے سنہ 2001 میں 4000 رضا کاروں پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔

حافظ گل بہادر گروپ ماضی میں پاکستان حکومت کی زیادہ مخالفت میں نہیں رہا لیکن شمالی وزیرستان میں جون سنہ 2014 میں آپریشن ’ضرب عضب‘ شروع ہوا جس کے بعد حافظ گل بہادر اور ان کا گروہ غیر فعال ہو گیا تھا۔

اس آپریشن میں حکومت نے متعدد شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ علاقہ اب شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔

اس آپریشن کے سات سال کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومت اب ان تنظیموں سے مذاکرات کر رہی ہے تاکہ علاقے میں امن قائم کیا جا سکے لیکن سکیورٹی فورسز کے جانی خیل اور شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اب تک حکومت کے مذاکرات میں حافظ گل بہادر کی تنظیم شوریٰ مجاہدین شامل نہیں۔

مذاکرات اور اختلافات

اگرچہ قبائلی علاقوں میں بر سر پیکار شدت پسندوں کے ساتھ حکومت نے مختلف معاہدے کیے اور انھیں تحریر میں بھی لایا گیا جن میں نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ کیے گئے معاہدے اہم ہیں۔ یہ معاہدے ہوئے، پھر خلاف ورزیاں ہوئیں اور یوں یہ بندھن بھی ٹوٹ گئے۔

اس کے ساتھ کچھ غیر تحریری معاہدے بھی کیے گئے جن میں حکومت کا حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ معاہدہ شامل تھا۔ حافظ گل بہادر شوریٰ مجاہدین گروپ کے سربراہ تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام لگتا تھا۔

ان کے بارے میں سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ انھی گروپس میں سے ایک ہیں جن کے لیے ’گڈ طالبان‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کی طرح یہ بھی امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔

پاکستان نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ پاکستانی فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ سنہ 2008 میں بھی دوبارہ کیا گیا اور اس گروہ نے فوج کے خلاف کارروائیاں روک دیں۔

سنہ 2014 میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب وہ ’افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک رہے ہیں اور پہلے پاکستانی فوج سے نمٹیں گے۔‘

خیال رہے کہ یہ وہی گروپ ہے جس نے وزیراعظم کی جانب سے طالبان سے بات چیت کے حالیہ بیان کے بعد سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔

قبائلی علاقوں میں اس وقت ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے، ایک طرف ایک گروپ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، جس میں سیز فائر کا اعلان بھی ہو چکا ہے تو دوسری جانب باقی گروپ متحرک ہیں، جن میں داعش بھی شامل ہے، جس نے حالیہ کچھ عرصے میں تشدد کے متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے اور ان میں پشاور کی شیعہ مسجد میں دھماکہ بھی شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں