داعش میں شامل ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی بہنوں کی شہریت منسوخ

لندن (ویب ڈیسک) برطانیہ نے شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی مزید 2 برطانوی خواتین کی شہریت منسوخ کردی۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے مقامی اخبار کا حوالہ دیا کہ سگی بہنوں 30 سالہ ریما اقبال اور 28 سالہ زارہ نے 2013 میں شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دوسری جانب برطانیہ کی جانب سے دونوں بہنوں کی شہریت منسوخ کیے جانے پر ان کے بچوں کے مستقبل سے متعلق تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ 20 فروری کو شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کرنے اور پھر لندن واپس آنے کی خواہش ظاہر کرنے والی برطانوی خاتون شمیمہ بیگم کی شہریت بھی منسوخ کردی گئی تھی۔

شام کے پناہ گزین کیمپ میں شمیمہ بیگم نے گزشتہ ہفتے بچے کو جنم دیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا تھا۔

ریما اقبال اور زارہ کی شہریت منسوخ کیے جانے پر لندن سمیت دیگر شہروں میں دوبارہ بحث گرم ہے کہ دونوں بہنوں کی اولادیں بھی موت کا شکار ہو سکتی ہے۔

برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے دعوی کیا ہے دونوں بہنوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جبکہ اس ضمن میں برطانوی وزیر داخلہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

اس سے قبل دی گارجین میں شائع رپورٹ کے مطابق سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید نے شمیمہ بیگم کے اہلخانہ کو مراسلہ میں اطلاع دی تھی کہ ’وہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی شہری شمیمہ بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کا حکم جاری کر چکے ہیں‘۔

اخبار نے قانونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دونوں لڑکیوں نے داعش کے ان دہشت گردوں کے ساتھ شادی کی جنہوں نے غیر ملکی سیاحوں کو قتل کیا تھا۔

ایک ترجمان نے بتایا کہ ’کسی بھی شہری کو اس کی شہریت سے محروم کرنے کا فیصلہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جسے محض سطحی نہیں لیا جا سکتا‘۔

خیال رہے کہ شمیمہ بیگم اور ان کی ساتھی اس وقت خبروں کی زینت بنی تھیں جب وہ صرف 15 سال کی عمر میں مشرقی لندن کے علاقے بیتھنل گرین سے اپنی دوستوں کے ہمراہ فرار ہوگئی تھیں۔

برطانیہ سے فرار ہو نے کے بعد برطانوی اخبار کو دیے گئے ایک انٹریو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک واپس آنا چاہتی ہیں۔

خیال رہے کہ برطانوی حکام کے مطابق تقریباً 900 برطانوی شہری جنگ میں شامل ہونے کے لیے شام اور عراق گئے جن میں سے 300 سے 400 افراد واپس لوٹ چکے ہیں جب کہ 40 کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی گئی۔

برطانوی حکام کو گزشتہ ماہ تک تنازع کا شکار علاقے میں موجود 200 افراد کے زندہ ہونے کا یقین تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں