ڈنمارک: کوپن ہیگن کے شاپنگ مال میں فائرنگ سے 3 افراد ہلاک

کوپن ہیگن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز/ڈی پی اے) ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے ایک شاپنگ مال میں فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق حملے کا مقصد ابھی واضح نہیں ہے، تاہم ”دہشت گردانہ کارروائی” کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا گیا ہے۔

ڈنمارک میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو دارالحکومت کوپن ہیگن کے سب سے بڑے شاپنگ مال میں ایک بندوق بردار نے اندھادھند فائرنگ کر کے تین افراد کو ہلاک اور دیگر کئی کو لوگوں کو زخمی کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق زخمیوں میں سے تین کی حالت کافی نازک ہے، جن کا ہسپتال میں علاج چل رہا ہے۔

پولیس نے حملے کے سلسلے ایک 22 سالہ مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے اور اس پر اس حملے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق شام کے تقریبا ساڑھے پانچ بجے کے وقت پیش آیا۔

پولیس کا بیان

چیف پولیس انسپکٹر سورین تھامسن نے اتوار کی شام کو ایک نیوز کانفرنس میں حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک 22 سالہ ڈینش شہری کو فائرنگ کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال پولیس کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس واقعے میں کوئی اور بھی ملوث تھا۔

محکمہ پولیس کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس واقعے کو ”دہشت گردانہ کارروائی” ہونے کے امکان کو فوری طور پر،خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مال کے اندر کئی مقامات پر فائرنگ ہوئی۔

ڈنمارک کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈی آر نے ایک مقامی ہسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ کے بعد وہ اپنے ٹراما سینٹر میں تین افراد کا علاج کر رہے ہیں۔ بعض دیگر مقامی میڈیا نے ایسی تصاویر اور ویڈیوز شائع کی ہے جس میں، جائے وقوعہ پر بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس افسران کے ساتھ ہی شاپنگ مال سے باہر بھاگتے ہوئے افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈنمارک کے وزیر اعظم کا رد عمل

اتوار کی رات کو ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے ہلاک شدگان کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو ایک ”ظالمانہ حملے” کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس حملے میں، ”متعدد افراد مارے گئے اور اس سے بھی زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ بے گناہ خاندان یا تو خریداری کر رہے تھے یا باہر کھانا کھا رہے تھے۔ اس میں بچے، نوجوان اور بالغ سبھی شامل ہیں۔ یہ دل دہلا دینے والا اور بے معنی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، ”میں ڈنمارک کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں کہ وہ اس مشکل وقت میں ایک ساتھ کھڑے ہوں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔”

ڈنمارک کے شاہی خاندان نے ایک بیان جاری کیا جس میں شوٹنگ کے بعد، ”اتحاد اور دیکھ بھال” پر زور دیا گیا۔ ملکہ مارگریتھ اور ولی عہد شہزادہ فریڈرک اور شہزادی میری کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ”ہمارے خیالات اور گہری ہمدردی متاثرین، ان کے خاندانوں اور سانحہ سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں کے ساتھ ہیں۔”

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

ڈنمارک کے ایک مقامی اخبار برلنگسک نے مال میں موجود ایک عینی شاہد سے بات کی، جس نے بتایا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو خریدار مال سے باہر نکلنے کے لیے بھاگے۔ مال میں کام کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا، ”یہ ایک پاگل پن والا ماحول تھا۔” انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار گولیاں چلنے کی آواز سنی اور دیکھا کہ لوگ دکان بند کیے بغیر ہی مال سے بھاگنا شروع ہو گئے۔

ایک اور عینی شاہد نے ٹی وی ٹو سے بات چیت میں کہا کہ ”پہلے تو ایسا لگا کہ یہ کوئی چور ہے… پھر میں نے اچانک گولیوں کی آوازیں سنیں، تب اسٹور کے اندر کاؤنٹر کے پیچھے کود کر میں اپنے آپ کو چھپایا۔” ان کا مزید کہنا تھا، ”وہ صرف ہجوم میں گولی چلا رہا ہے، چھت یا فرش میں نہیں۔”

وہاں پر موجود ایک خریدار لاریٹس ہرمنسن نے ڈی آر کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ کپڑے کی دکان میں تھے، تبھی انہوں نے ”تین چار دھماکے سنے۔ واقعی میں زوردار دھماکے، ایسا لگتا تھا جیسے دکان کے بالکل پاس گولیاں چلائی جا رہی ہوں۔”

جس مال میں فا ئرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا اسی کے پاس ہی پاپ ا سٹار ہیری اسٹائلز کے رائل ایرینا میں ایک کنسرٹ ہونے والا تھا جس سے محض چند گھنٹے قبل فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ سے شو بھی منسوخ کرنا پڑا، جس کی تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکی تھیں۔

ایک ہفتہ قبل ہی ہمسایہ ملک ناروے کے شہر اوسلو میں بھی ہم جنس پرستوں کے ایک بار کے قریب ایک بندوق بردار کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں