برطانوی سپیشل فورسز نے افغانسان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا، تحقیقاتی رپورٹ

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق، افغانستان میں برطانوی سپیشل فورسز (ایس اے ایس) کے اہلکاروں نے بار بار حراست میں لیے گئے افراد اور غیر مسلح افراد کو مشکوک حالات میں قتل کیا۔ نئی حاصل شدہ فوجی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک یونٹ نے ایک بار چھ ماہ کے عرصے میں غیر قانونی طور پر 54 افراد کو ہلاک کیا۔

بی بی سی کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا کہ سپیشل فورسز کے سابق سربراہ اپنی بے گناہی کے ثبوت دینے میں ناکام رہے، تاہم وزارت دفاع نے کہا کہ برطانوی فوجیوں نے افغانستان میں جرات اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ خدمات انجام دیں۔

بی بی سی سمجھتا ہے کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کے سابق سربراہ جنرل سر مارک کارلٹن سمتھ کو مبینہ غیر قانونی طور پر قتل کیے گئے افغانوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی لیکن انھوں نے رائل ملٹری پولیس کو اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں دیے، یہاں تک کہ رائل پولیس نے سپیشل فورسز کے خلاف قتل کی تحقیقات شروع کیں۔

گزشتہ ماہ عہدہ چھوڑنے سے قبل فوج کے سربراہ رہنے والے جنرل کارلٹن سمتھ نے بی بی سی اس تحقیقات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

اپنی تحقیق میں بی بی سی پینورما نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل سپیل فورسز کے ’آپریشنل اکاؤنٹس‘ کا تجزیہ کیا، جن میں 2010/11 میں ہلمند میں سپیشل فورسز کے ایک سکواڈرن کی طرف سے کیے گئے ایک درجن سے زیادہ ’قتل یا گرفتاریوں‘ کی تفیصلات بھی شامل ہیں۔

ایس اے ایس سکواڈرن کے ساتھ خدمات انجام دینے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دیکھا کہ سپیشل فورسز والے رات کے چھاپوں کے دوران غیر مسلح افراد کو قتل کر دیتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے سپیشل فورسِز کے اہلکاروں کو نام نہاد ’ڈراپ ویپنز‘ اے کے 47 کو ان جگہوں پر نصب کرتے دیکھا تا کہ غیر مسلح افراد کی ہلاکتوں کے لیے کوئی جواز گھڑا جا سکے۔

سپیشل فورسز کے ساتھ خدمات انجام دینے والے متعدد افراد کا کہنا تھا کہ فورس کے اہلکار سب سے زیادہ افراد کو مارنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے، اور بی بی سی کو تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ اہلکار اپنے سے پہلے والی سکواڈرن کے اہلکاروں سے زیادہ قتل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

محکمانہ ای میلز سے پتہ چلتا ہے کہ سپیشل فورسز کے اعلیٰ ترین سطح کے افسران کو معلوم تھا کہ ممکنہ غیر قانونی ہلاکتوں پر تشویش پائی جاتی ہے، لیکن وہ اپنی قانونی ذمہ داری کے باوجود ملٹری پولیس کو ان مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دینے میں ناکام رہے۔

برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ مخصوص الزامات پر تبصرہ نہیں کر سکتی لیکن تبصرہ کرنے سے انکار کو الزامات کی حقیقت کی درستگی کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔

وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ برطانوی افواج نے افغانستان میں ’جرات اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ خدمات انجام دیں‘ اور انھیں ’اعلیٰ ترین معیار‘ پر رکھا گیا۔

مشکوک ہلاکتوں کے لیے اختیار کیا گیا طریقہ کار

برطانوی ہائی کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی سپیشل فورسز کے افسران کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ان کے فوجیوں نے چند ایسے غیر مسلح افغان باشندوں کو قتل کیا، جن سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات خفیہ رکھے گئے اور رائل ملٹری پولیس کو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ برطانوی وزارت دفاع کا مؤقف ہے کہ یہ شواہد نئے نہیں اور ان پر پہلے ہی تفتیش ہو چکی ہے۔

یہ عدالتی کیس سنہ 2019 میں بی بی سی پینوراما اور سنڈے ٹائمز کی تحقیق کے بعد شروع ہوا جس میں افغانستان کی جنگ میں شامل برطانوی سپیشل فورسز کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات منظر عام پر لائے گئے تھے۔

برطانوی عدالت اس سوال پر غور کر رہی ہے کہ آیا ان الزامات پر مسلح افواج نے تسلی بخش تفتیش کی یا نہیں۔

اس تازہ ترین تحقیقات کے لیے بی بی سی نے نئی حاصل کردہ آپریشنل رپورٹس کا تجزیہ کیا، جس میں سپیشل فورسز کے رات کے چھاپوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

ہمیں حیرت انگیز طور پر اسی طرح کی اطلاعات کا ایک نمونہ ملا کہ افغان شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا کیونکہ انھوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد پردے یا دیگر فرنیچر کے پیچھے سے اے 47 رائفلیں یا دستی بم کھینچے۔

• 29 نومبر 2010 کو سپیشل فورسز کے اس سکواڈرن نے ایک شخص کو مار ڈالا جسے حراست میں لیا گیا تھا اور ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا، جہاں اس نے ’فورس کو دستی بم سے مارنے کی کوشش کی‘۔

• 15 جنوری 2011 کو سکواڈرن نے ایک شخص کو مار ڈالا جسے حراست میں لیا گیا تھا اور ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا، جہاں وہ ’گدے کے پیچھے پہنچا، ایک ہینڈ گرنیڈ نکالا اور اسے پھینکنے کی کوشش کی‘۔

• 7 فروری کو سکواڈرن نے ایک قیدی کو مار ڈالا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’رائفل سے گشت کرنے والے برطانوی فوجیوں کو مارنے کی کوشش کی‘۔ 9 فروری اور 13 فروری کو قیدیوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے لیے بھی یہی جواز پیش کیا گیا تھا۔

• 16 فروری کو سکواڈرن نے دو زیر حراست افراد کو اس وقت مار ڈالا جب ایک نے ’پردے کے پیچھے سے‘ دستی بم پھینکا اور دوسرے نے ’ایک میز کے پیچھے سے ایک اے کے 47 رائفل اٹھائی‘۔

• یکم اپریل کو سکواڈرن نے دو زیر حراست افراد کو مار ڈالا جنھیں ایک نے اے کے 47 اٹھانے اور دوسرے نے ’دستی بم پھینکنے کی کوشش‘ کی۔

سکواڈرن کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مرنے والوں کی کل تعداد تین گنا تھی۔ بی بی سی نے ان تمام چھاپوں پر تحقیقات کیں جس میں سپیشل فورسز کے اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

برطانیہ کے سپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سکواڈرن کی رپورٹس پر ’حقیقی تشویش‘ پائی جاتی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’رات کے چھاپوں میں بہت سے لوگ مارے جا رہے تھے اور وضاحتوں کا کوئی تُک نہیں تھا‘۔ ایک بار جب کسی کو حراست میں لے لیا جائے تو پھر اسے قتل کرنے کا کوئی جوازنہیں بنتا۔ اس کا بار بار ہونا ہیڈکوارٹر میں خطرے کی گھنٹی کا باعث بن رہا تھا۔ اس وقت یہ واضح تھا کہ کچھ غلط ہے۔

اس وقت کی اندرونی ای میلز سے پتا چلتا ہے کہ افسران نے ان رپورٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں ’کافی ناقابل یقین‘ قرار دیا اور سکواڈرن کے ’تازہ ترین قتل عام‘ کا حوالہ دیا۔ ایک آپریشن آفیسر نے ایک ساتھی کو ای میل کی اور لکھا کہ ’گزشتہ دو ہفتوں میں 1دسویں بار‘ سکواڈرن نے ایک زیر حراست شخص کو ایک عمارت کے اندر واپس بھیجا اور وہ اے کے 47 رائفل کے ساتھ باہر پھر نمودار ہوا‘۔

رپورٹ کے مطابق آٹھ بار ایسا ہوا ہے کہ اندر کسی کو بھیجا گیا اور اس نے پردے کے پیچھے سے دستی بم نکالا اور برطانوی فوجیوں پر پھینکنے کی کوشش مگر وہ ایک بار بھی ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

جیسے جیسے خدشات بڑھتے گئے، ملک کے اعلیٰ ترین اسپیشل فورسز کے افسروں میں سے ایک نے ایک خفیہ میمو میں خبردار کیا کہ آپریشن میں یہ غیر قانونی قتل کی ’دانستہ پالیسی‘ ہو سکتی ہے۔ سینیئر قیادت اس قدر پریشان ہوگئی کہ سکواڈرن کی حکمت عملی کا ایک منفرد رسمی جائزہ لیا گیا۔

لیکن جب سکواڈرن کے اہلکاروں سے انٹرویو کرنے کے لیے ایک سپیشل فورسز کے افسر کو افغانستان میں تعینات کیا گیا، تو وہ ان واقعات میں سپیشل فورسز کے مؤقف سے قائل نظر آئے۔

بی بی سی کی سمجھ کے مطابق اس فوجی افسر نے چھاپوں کے کسی بھی جائے وقوعہ کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی فوج کے علاوہ کسی آزاد گواہ کا انٹرویو کیا۔ عدالتی دستاویزات سے یہ پتا چلتا ہے کہ حتمی رپورٹ پر سپیشل فورسز کے یونٹ کے اس کمانڈنگ آفیسر نے دستخط کیے تھے، جو ان مشکوک ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔

کوئی بھی ثبوت ملٹری پولیس کو نہیں دیا گیا۔ بی بی سی نے دریافت کیا کہ خدشات پر مشتمل بیانات کو ’ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں ایسی معلومات‘ کے لیے ایک محدود رسائی کی خفیہ فائل تک محدود رکھا گیا، جس تک رسائی صرف چند سینیئر سپیشل فورسز کے افسران کو ہی تھی۔

ایس اے ایس کے اسکواڈرن کو پھر سنہ 2012 میں اپنے فوجی چھ ماہ کے لیے افغانستان میں تعینات کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

جب ملٹری پولیس نے سنہ 2013 میں ایک کارروائی میں ماورائے قانون ہلاکتوں کی تفتیش شروع کی تو سپیشل سروسز کے ڈائریکٹر، جنرل کارلٹن سمتھ نے پولیس کو نہیں بتایا کہ اس سے پہلے بھی سپیشل سروسز کے ہاتھوں ماوارائے قانون ہلاکتوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ مذکورہ جنرل نے ملٹری پولیس کو یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے اہلکاروں کی کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔

سنہ 2011 میں افغانستان میں تعینات رہنے والے رائل میرین کے کمانڈر، کرنل اولیور لِی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہماری تحقیقاتی ٹیم نے برطانوی فوجیوں کے غیر مناسب رویے کے حوالے سے جو سوال اٹھائے ہیں وہ ان کے ’انتہائی حیران کن اور خوفناک‘ ہیں اور ان الزامات کی عوام کے سامنے انکوائری ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپیشل فورسز کے اعلیٰ افسران شواہد سامنے لانے میں جس بری طرح ناکام ہوئے ہیں، یہ چیز ’بالکل ناقابلِ قبول‘ ہے۔

مار دو یا پکڑ لو

بی بی سی کی تحقیقات کا بنیادی مقصد ان چھ ماہ کے اندر کی جانے والی کارروائوں کا جائزہ لینا تھا جب ایس اے ایس کا ایک سکواڈرن نومبر سنہ 2010 میں افغانستان پہنچا تھا۔

یہ سکواڈرن زیادہ تر صوبہ ہلمند میں خدمات سرانجام دے رہا تھا، جو کہ افغانستان میں اس وقت سب سے زیادہ خطرناک علاقہ سمجھا جاتا تھا اور وہاں آئے روز طالبان گھات لگا کر حملے کر رہے تھے اور سڑک کنارے لگائے جانے والے بموں کی وجہ سے افغان اور اتحادی فوج کے اہلکار مارے جا رہے تھے۔

سپیشل فورسز کے اس سکواڈرن کا بنیادی کام ڈلیبریٹ ڈیٹنشن آپریسنز (ڈی ڈی او) قسم کی کاروائیاں کرنا تھا۔ ان کاروائیوں کو ’مار دو یا پکڑ لو‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اس عنوان کے تحت سپیشل فورسز کے فوجی مختلف مقامات پر چھاپے مارتے جن کا مقصد طالبان کمانڈروں کو حراست میں لینا اور ان کے بم بنانے کی صلاحیت کو کمزور کرنا تھا۔

سپیشل فورسز کی ان کاروائیوں کے اہداف کا انتخاب اور منصوبہ بندی کرنے والے بہت سے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جس قسم کی خفیہ معلومات مل رہی تھیں ان میں شدید مسائل تھے، جس کا نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ سپیشل فورسز کے فوجی جہاں بھی کوئی کارروائی کرتے وہاں عام شہریوں کے موجود ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے تھے۔

ایک ایسے برطانوی نمائندے کے مطابق جو سنہ 2011 میں طالبان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کے کام پر مامور تھے ’خفیہ ایجنسی کے لوگ ہمارے سامنے ایسے لوگوں کی فہرستیں لا رہے تھے جو ان کے خیال میں طالبان تھے۔ اس فہرستوں پر تھوڑی دیر کے لیے گفتگو ہوتی تھی۔ پھر یہ فہرستیں سپیشل فورسِز کے اہلکاروں کا تھما دی جاتی تھیں کہ وہ جائیں اور ان افراد کو پکڑیں اور اگر پکڑ نہ سکیں یا مار دیں۔‘

اس نمائندے کے مطابق اہلکاروں پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ وہ جلدی جلدی جائیں اور کارروائی کریں۔ ’ضروری نہیں کہ اس کا یہ مطلب یہ تھا کہ آپ وہاں جائیں اور وہاں موجود تمام لوگوں کو مار دیں، لیکن اس بات میں شک نہیں کہ اہلکاروں پر دباؤ ہوتا تھا۔ اس کا مطب یہ تھا کہ آپ کسی مقام پر جمع لوگوں کے بارے میں پہلے ہی حکم صادر کر چکے ہیں۔‘

اپنے چھاپوں کے دوران، سپیشل فورسز کے مذکورہ سکواڈرن کے اہلکار مقررہ مقام پر پہنچ کر اعلان کرتے کہ تمام لوگ عمارت سے باہر آ جائیں۔ ان تمام لوگوں کے ہاتھ تاروں کی مدد سے بادط کر ان کی تلاشی لی جاتی اور پھر ان میں ایک مرد کو ساتھ لیکر فوجی عمارت متں داخل ہو جاتے اور تمام عمارت کا معائنہ کرتے۔

لیکن سینیئر افسران میں اپنے اہلکاروں کے ان بیانات سے بے چینی بڑھ رہی تھی کہ اکثر اوقات جب وہ عمارت کے تلاشی لینے کے لیے اندر جاتے تھے تو زیر حراست فرد عمارت کے اندر پڑے ہوئے ہتھیار اٹھا لیتا اور فوجیوں پر حملہ آور ہو جاتا تھا۔ تاہم، افغانستان میں تعینات برطانوی افواج کے دوسرے دستے اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ طالبان یہ ہتھکنڈا استعمال کرتے تھے۔

اس کے علاوی سینیئر افسران کو یہ فکرمندی بھی تھی کئی مرتبہ ان چھاپوں کے دوران جتنا اسلحہ (بندوقیں) برآمد کی گئیں ان سے زیادہ افراد ہلاک کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سپیشل فورسز کے فوجی غیر ملسح لوگوں کو بھی مار رہے تھے اور افسران کو شک گزرا کہ شاید برطانوی لوگوں کو مارنے کے بعد اس مقام پر خود ہی اسلحہ پھینک کر یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ واقعی وہاں پر ہر شخص مسلح تھا۔

جب آسٹریلیا میں بھی افغانستان میں تعینات آسٹریلوی فوجیوں کے ہاتھوں ماورائے قانون ہلاکتوں پر خدشات کا اظہار کیا گیا تو ایک انکوائری میں معلوم ہوا کہ اس بات کے ’قابلِ بھروسہ‘ ثبوت موجود ہیں کہ آسٹریلیا کے فوجیوں نے 39 افراد کو غیرقانونی طور پر ہلاک کیا تھا اور اور ان ہلاکتوں کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اس مقام پر خود ’ڈراپ ویپن‘ (اسلحہ گراؤ) والا حربہ استعمال کیا تھا۔

سنہ 2011 تک سپیشل فورسز کے ہاتھوں غیر مسلح افراد کی ہلاکتوں کے حوالے سے خدشات میں اس قدر اضافہ ہو چکا تھا کہ سپیشل فورسز کے ایک سینیئر افسر نے اپنے ڈائریکٹر کو لکھا کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ فوجی مقامی افراد کو حراست میں لیے جانے کے بعد قتل کر رہے ہیں اور یہ دکھانے کے لیے کہ انھوں نے خود کو بچانے کے لیے گولی چلائی تھی، یہ اہلکار جھوٹے ثبوت دکھا رہے ہیں۔

دو ہی دن بعد برطانوی سپیشل فورسز کے اسسٹنٹ چیف آف سٹاف نے اپنے ڈائریکٹر کو خبردار کیا کہ شاید اہلکار ایسے مقامی افراد کو بھی بلاوجہ مار رہے ہیں جن سے ہمارے فوجیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔

انھوں نے لکھا کہ کہ ’اگر یہ شکوک درست ثابت ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سپیشل فورسز کا اسکواڈرن ایک اسیے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں ان کے پاس اپنی کارروائیوں کا اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے۔‘

ایس اے ایس نے سنہ 2010 اور 2011 میں ہملند میں جن گھروں پر چھاپے مارے تھے، بی بی سی کی ٹیم نے ان گھروں کا دورہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے ناد علی کے قریب ایک گاؤں میں ایک پختہ دیواروں والے گیسٹ ہاؤس پر سات فروری سنہ 2011 کو کی جانے والی ایک کارروائی میں ایک نو عمر لڑکے سمیت نو افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

سپیشل فورسز کے اہلکار اس مقام پر رات کی تاریکی میں ایک ہیلی کاپٹر میں آئے تھے اور اس مکان کو قریب ہی واقع کھیتوں کی جانب سے گھیرے میں لیا تھا۔ ان اہلکاروں کے بیان کے مطابق مکان میں چھپے شرپسندوں نے فائرنگ شروع کر دی تھی جس کے جواب میں انھوں نے بھی فائرنگ کی جس سے مکان میں موجود تمام لوگ مارے گئے۔

اس مکان سے اے کے 47 ساخت کی صرف تین بندوقیں برآمد کی گئی تھیں۔ ایسی پانچ مزید کارروائیاں بھی کی گئیں جہاں سے برآمد ہونے والے ہتھیاروں کی تعداد مارے جانے والے افراد سے کم تھی۔

بی بی سی کی نظر سے گزرے وہ مزید مقامات پر ایسے نشانات تھے۔ بیلسٹکس کے ماہرین، جنھیں یہ تصاویر دکھائی گئیں، کا کہنا ہے کہ گولیوں کے نشان بظاہر دفاعی فائرنگ کے بجائے نشانہ لے کر قتل کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آر ایم پی کے تفتیش کار نے بی بی سی کو تصدیق دی کہ انھوں نے یہ تصاویر دیکھی ہیں اور گولیوں کے نشانات نے انھیں حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں ہم کیوں اتنی تشویش میں ہیں۔ دیواروں پر گولیوں کے نشان اس قدر نیچے ہیں اور سپیشل فورسز کے مؤقف کے برعکس ہیں۔‘

سال 2014 کے دوران آر ایم پی نے آپریشن نارتھمور کا آغاز کیا جس دوران افغانستان میں برطانوی فوج پر 600 مبینہ جرائم کی تحقیقات کی گئی۔ اس میں ان ہلاکتوں کی بھی تحقیق کی گئی جس میں ایس اے ایس کے سکواڈرن ملوث تھے۔

بی بی سی کی طرف سے کی گئی تحقیق میں دو دیگر جگہوں پر بھی یہی بات سامنے آئی ہے۔ تصویروں کا جائزہ لینے والے بیلسٹکس کے ماہرین نے کہا کہ گولیوں کے سوراخ فائر فائٹ کے بجائے پھانسی کی طرز کے قتل کی نشاندہی کرتے ہیں۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، آر ایم پی کے ایک تفتیش کار نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ انہوں نے مناظر کی تصاویر دیکھی ہیں اور گولیوں کے نشانات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

تفتیشی اہلکار نے کہا کہ ‘آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کیوں فکر مند تھے۔’ “دیواروں پر گولیوں کے نشانات زمین سے اتنے نیچے دکھائی دیتے ہیں کہ اسپیشل فورسز کی طرف سے بیان کردہ واقعات کی نفری کرتے ہیں۔”2014 میں، آر ایم پی نے آپریشن نارتھمور کا آغاز کیا، جو کہ افغانستان میں برطانوی افواج کے 600 سے زائد مبینہ جرائم کی ایک وسیع پیمانے پر تحقیقات ہے، جس میں ایس اے ایس سکواڈرن کے ہاتھوں متعدد ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن آر ایم پی کے تفتیش کاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانوی فوج نے شواہد اکٹھے کرنے کی ان کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی۔

وزارت دفاع نے کہا کہ برطانوی فوجیوں کو اعلیٰ معیار پر رکھا گیا ہے۔

ایک ترجمان نے کہا کہ کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے، لیکن سروس پولیس نئے ثبوت سامنے آنے پر کسی بھی الزام پر غور کرے گی۔`ایک مزید بیان میں، وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ پینوراما انالزامات سے غیر منصفانہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں جن کی پہلے ہی مکمل تحقیقات کر لی گئیں تھیںاس بیان میں مزید کہا گیا ہے: “ہم نے پینوراما کو ایک تفصیلی اور جامع بیان فراہم کیا ہے، جس میں واضح طور پر اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح دو سروس پولیس آپریشنز نے افغانستان میں برطانوی افواج کے طرز عمل سے متعلق الزامات کی وسیع اور آزادانہ تحقیقات کیں۔”کسی بھی تفتیش میں مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے۔ دوسری صورت میں اصرار کرنا غیر ذمہ دارانہ، غلط ہے اور ہمارے بہادر مسلح افواج کے اہلکاروں کو میدان میں اور ساکھ دونوں لحاظ سے خطرے میں ڈالتا ہے۔”وزارت دفاع یقیناً کسی بھی نئے شواہد پر غور کرنے کے لیے تیار ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لیکن ایسے شواہد کیعدم موجودگی میں، ہمیں اس طرح کی صحافت پر سخت اعتراض ہے۔’آپریشن نارتھ مور کو 2017 میں روک دیا تھا اور بالآخر 2019 میں بند کر دیا گیا تھا۔ وزارت دفاع نے کہا ہے کہ جرائم کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اس نتیجے پر اختلاف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں