سرینگر: بھارتی کشمیر میں ‘یوم شہداء‘ منانے پر پابندی برقرار

سری نگر (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 13 جولائی کو ’یوم شہداء‘ کے موقع پر ایک اہم تقریب ہوا کرتی تھی، تاہم اب حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس موقع پر تازہ تشدد میں ایک پولیس افسر ہلاک اور چند دیگر زخمی ہو گئے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’یوم شہداء‘ کے موقع پر سری نگر کے لال چوک کے علاقے میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں ایک پولیس افسر ہلاک اور دو دیگر اہلکار زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ منگل کی شام پیش آیا۔ اس حملے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر مشتاق احمد موقع پر ہی ہلاک جبکہ ہیڈ کانسٹیبل فیاض احمد اور اسپیشل پولیس کے ایک افسر زخمی ہو گئے۔

کشمیر پولیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ مشتاق احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے، ’’ہلاک شدگان کو ان کی بہادری کے لیے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں زخمی اہلکاروں کا علاج جاری ہے۔‘‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت ہندو زائرین کی امرناتھ یاترا جاری ہے جس کی وجہ سے سکیورٹی کے بہت سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ہر راستے پر فوج اور نیم فوجی دستے جگہ جگہ تعینات ہیں اور آنے جانے والے مقامی باشندوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں سکیورٹی فورسز پر حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ حالات کافی نازک ہیں۔

’یوم شہداء‘ کی تقریب پر پابندی

سری نگر کے لال چوک میں سکیورٹی فورسز پر حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا، جب ’یوم شہداء‘ کی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر سال 13 جولائی کو کشمیر میں ڈوگرا راجہ کے خلاف پہلی مرتبہ سن 1931 میں آواز اٹھانے والوں کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ تاہم بھارت نے گزشتہ تین برسوں سے یہ دن منانے کی اجازت نہیں دی۔

سری نگر کے ایک مقامی صحافی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ حکومت نے سری نگر کے خواجہ بازار میں واقع، ماضی میں آج کے دن مرنے والوں کی یاد میں قائم ’مزار‘ کی جانب جانے والے راستوں کو اس بار کھلا رکھا ہے، تاہم سکیورٹی بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’البتہ قبرستان کا دروازہ مکمل طور پر بند ہے اور کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں۔ اس کے باوجود کئی افراد کو گیٹ کے باہر کچھ فاصلے پر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا گیا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’آج کے روز ان افراد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سری نگر میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام ہوا کرتا تھا، سرکاری چھٹی ہوتی تھی۔ حریت کی جانب سے ہڑتال کی کال ہوتی تھی، اب تو سب پر پابندی عائد ہے۔ یہ کشمیر کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو بھی قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جو سن 2020ء سے قبل ہر سال 13 جولائی کو وہاں جا کر ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا کرتے تھے۔

بھارتی حکومت کے اس رویے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں اس رویے کی مذمت کی اور کہا، ’’تمام سیاسی رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد کو گورنر کی انتظامیہ نے نقش بند صاحب کے پاس ہی روک دیا۔‘‘

ایک اور مقامی صحافی نے بتایا کہ عام طور پر اس دن ہڑتال ہوتی تھی اور شہروں میں دکانیں بند رہتی تھیں تاہم اس بار ایسا کچھ نہیں ہے اور لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی عام دن ہو۔

اس دن کی تاریخ

مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر میں ہندو ڈوگرا راجہ کے مبینہ مسلم مخالف اقدامات کے خلاف پہلی بار 13 جولائی سن 1931 کے روز آواز اٹھائی گئی تھی۔ تب مسلم کارکنوں نے اس وقت کے راجہ کے خلاف مظاہرہ کیا اور رد عمل میں راجہ نے مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا، جس میں 22 افراد مارے گئے تھے۔

اسی وقت سے کشمیری عوام اور مقامی رہنما ان ہلاک شدگان کی یاد میں ‘یوم شہداء‘ منانے کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ 1948 میں کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے جب اس دن کو سرکاری تعطیل قرار دیا تو اس دن کی تقریب کا اہتمام حکومتی سطح پر بھی کیا جانے لگا تھا۔

لیکن مودی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں کشمیر میں اس چھٹی کو منسوخ کر دیا تھا اور اس کی جگہ 26 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا، جس دن ڈوگرا راجہ نے بھارت سے الحاق کیا تھا۔ جموں خطے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی ہندو گروپ ‘یوم شہداء‘ کی مخالفت کرتے تھے اور اس دن اپنے طور پر یوم سیاہ مناتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں