تحریکِ طالبان پاکستان سے مصالحت کی کوشش جاری, دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مصالحت کے لیے جاری کوششوں کے سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر بیرسٹر محمد علی سیف کے قیادت میں 15 رکنی وفد تین دنوں سے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے مذاکرات کے باوجود رواں برس دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف، جو خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات ہیں، نے پیر کو ٹیلیفون پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مذاکرات کا عمل پر امن ماحول میں جاری ہے۔ ان کے مطابق ان مذاکرات میں نہ تو کوئی رکاوٹ درپیش ہے نہ کسی قسم کی پیش رفت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی اپریل کے آخر میں اعلان کیے گئے جنگ بندی کے اعلان میں توسیع کرے ۔ قبل ازیں ٹی ٹی پی نے یکم اپریل کو 10 دن کے لیے جنگ بندی کااعلان کیا تھا۔ جنگ بندی میں تین بار توسیع کی گئی۔

ٹی ٹی پی نے کابل میں پاکستانی وفد کی موجودگی یا مذاکرات کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

علما کے وفد کا کابل کا دورہ

اس 15 رکنی وفد کے کابل پہنچنے سے ایک روز قبل وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں 12 رکنی وفد کابل کا پانچ روزہ دورہ مکمل کرکے اسلام آباد واپس آیا تھا۔

اس 12 رکنی وفد سے ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں 10 رکنی وفد نے ملاقات کی تھی البتہ اطلاعات کے مطابق یہ مختصر ملاقات زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔

کابل میں موجود وفد کے حوالے سے بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ 15 رکنی وفد میں افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں اور قبائلی اضلاع کے سرکردہ رہنما شامل ہیں۔ ان میں جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ اور ٹی ٹی پی کے بانی کمانڈر بیت اللہ محسود کے سسر اکرام الدین محسود بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد نے دیگر قبائلی عمائدین کے ساتھ اپریل کے آخر میں طالبان کو 10 دن کے لیے جنگ بندی پر قائل کیا تھا۔ وفد میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے رہنما اورصوبے کے سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ کے علاوہ مبینہ عسکریت پسند گروپ ’البدر‘ کے بانی بخت زمین بھی شامل ہیں۔

حکام جلد تصفیے کے لیے پر امید

واضح رہے کہ محمد علی سیف دوسری بار وفد لے کر کابل پہنچے ہیں۔ قبل ازیں وہ قبائلی علاقوں سمیت مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے عمائدین کے 50 رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے یکم جون کو کابل گئے تھے ۔ اس وقت ٹی ٹی پی نے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی حامی بھری تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ طالبان اور حکومت کے درمیان چوں کہ جنگ کافی طویل تھی، اسی وجہ سے اب اس جنگ کا خاتمہ اور مستقل امن معاہدہ کے لیے کافی جتن کرنے ہوں گے۔

ان کے مطابق وہ مذاکراتی عمل سےمطمئن ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت جلد فریقین کے مابین تصفیہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ٹی ٹی پی کے مطالبات

خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان نے مذاکرات میں اپنے مطالبات بھی پیش کیے ہیں جن میں اپنے سرکردہ کمانڈروں کی رہائی، ان کے خلاف درج مقدمات کا خاتمہ، قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی واپسی اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں سے فوج کے مکمل انخلا شامل ہیں۔

ان مطالبات پر بات کرتے ہوئے پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم سے منسلک منظور آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام ایک آئینی ترمیم کے ذریعے عمل میں آیا ہے، لہٰذا اس کے متعلق کسی بھی فیصلے کا اختیار پارلیمان ہی کے پاس ہے۔

پارلیمان کی ایک خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں جولائی کے دوسرے ہفتے میں فوجی حکام نے یقین دلایا تھا کہ طالبان کے ساتھ مصالحت یا امن معاہدہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی ایس سی سی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے مہینے کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں27 فی صد اضافہ ہوا جب کہ جون 2022 کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 5 فی صد کمی ہوئی ہے۔

اس ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں عسکریت پسندوں نے 33 حملے کیے، جن میں 17 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 34 افراد مارے گئے جب کہ 34 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 46 افراد زخمی ہوئے۔

جون 2022 میں عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں 26 حملے کیے تھے، جن میں 36 افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے۔

پی آئی ایس سی سی کے مطابق خیبر پختونخوا میں جون 2022 کے مقابلے میں جولائی میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 300 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جولائی میں عسکریت پسندوں کے 12 حملے رپورٹ ہوئے، جن میں 10 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے جب کہ 10 اہلکاروں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔

جون میں صوبے میں عسکریت پسندوں نے تین حملے کیے تھے جن میں تین افراد مارے گئے تھے۔

اس دوران ٹی ٹی پی نے خطے میں کسی بھی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جب کہ اپریل کے آخر میں کی جانے والی جنگ بندی سے قبل ٹی ٹی پی زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں