امریکا: مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ، حالت تشویشناک

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) مصنف سلمان رشدی کو جمعے کے روز نیویارک میں حملے کے بعد زخمی حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور نے ایسے میں سلمان رشدی کی گردن پر وار کیے ہیں جب وہ ایک انسٹی ٹیوٹ میں لیکچر دینے والے تھے۔

سلمان رشدی کو 80 کی دہائی میں ایک ایسی کتاب لکھنے پر ایران سے قتل کی دھمکیاں ملی تھیں جس کتاب کو کئی مسلمان اہانت آمیز قرار دیتے ہیں۔

مصنف سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائل نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بذریعہ ای میل مطلع کیا ہے کہ ان کی جانب سے اچھی خبر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلمان رشدی کی ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے اور اس حملے میں ان کے بازو کی اعصابی نسیں کٹ گئی ہیں اور چاقو کے وار سے جگر کو نقصان پہنچا ہے۔

اس سے قبل انہوں نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا ہے کہ ’ سلمان سرجری کے عمل سے گزر رہے ہیں‘۔

ریاست نیویارک کی پولیس کے ایک ترجمان نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ 73 برس کے سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کے شبہے میں 24 برس کے ہادی ماتر کو حراست میں لیا گیا ہے۔ مشتبہ شخص کا تعلق ریاست نیوجرسی کے علاقے فئیر ویو سے ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ ایک شخص نے اس وقت ’ شاتاقوا انسٹیٹیوٹ‘ میں سٹیج پر چڑھ کر سلمان رشدی پر حملہ کر دیا اور مکے برسانے یا ہتھیار سے وار شروع کر دیے جب ان کو تقریر کے لیے دعوت دینے سے قبل ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ رشدی اس موقع پر فرش پر گر گئے یا ان کو گرا دیا گیا اور حملہ آور شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ عینی شاہد کے مطابق حملہ آور نے 10 سے 15 مرتبہ وار کیا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس نے بتایا ہے کہ سلمان رشدی کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کی حالت کے بارے میں فوری طور پر کچھ واضح نہیں ہے۔ سٹیج پر تقریب کے میزبان یا ماڈریٹر پر بھی حملہ کیا گیا اور ان کو، پولیس کے مطابق سر پر معمولی چوٹ آئی ہے۔

دوسری طرف اخبار گارڈین نے بھی پولیس ذرائع سے دعوی کیا ہے کہ سلمان رشدی کی گردن میں چھرے سے وار کیا گیا ہے۔

ایک عینی شاہد ربی چارلس سیونر نے، جو جائے وقوعہ پر موجود سینکڑوں افراد میں سے ایک تھے، ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ’’ یہ شخص (حملہ آور) سٹیج کی طرف بھاگا اور اس نے مسٹر رشدی پر ہلہ بول دیا۔پہلی نظر میں تو آپ کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن کچھ سیکنڈوں کے بعد واضح ہو گیا کہ ان کو مارا جا رہا ہے‘‘

ان کے بقول حملہ بیس سیکنڈ تک جاری رہا۔

ایک اور عینی شاہد کیتھلین جونز نے کہا ہے کہ حملہ آور نے سیاہ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اور چہرے پر سیاہ ماسک چڑھایا ہوا تھا۔

’’ہمھیں لگا کہ جیسے یہ کوئی ڈرامہ کیا جا رہا ہے یہ بتانے کے لیے کہ مصنف اب بھی تنازعات کی زد میں ہیں۔ لیکن چند سیکنڈ میں واضح ہو گیا کہ یہ ڈرامہ نہیں تھا‘‘۔

سلمان رشدی کو اس موقع پر کچھ لوگوں نے اپنے حصار میں لے لیا اور بظاہر ان کے سینے کی طرف خون کی سپلائی کے لیے ان کی ٹانگوں کو اوپر اٹھایا۔

حملے کے جگہ پر موجود لوگوں کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔

سلمان رشدی کی کتاب ’ سیٹینک ورسز‘ پر ایران میں 1988 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی طرح بہت سے مسلمان بھی اس کتاب کو اہانت آمیز سمجھتے ہیں۔ ایک سال بعد، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے رشدی کے قتل کا ایک فتوی یا فرمان جاری کیا تھا۔

سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کے لیے تین ملین یا تیس لاکھ ڈالر بطور انعام دینے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔

شاتاقوا انسٹی ٹیوٹ کے ایک ترجمان نے سی این بی سی کے کو بتایا ہے کہ پیش آنے والے واقعے کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ابھی تک وہ کسی تفصیل کی تصدیق نہیں کر سکے۔

متنازع کتاب ’مذہب: شیطانی آیات، کے مصنف

سنہ 1988 میں مصنف سلمان رشدی کی کتاب میں اسلام پر تنقید کی گئی تھی اور اِس کی وجہ سے اِن کے سر پر لاکھوں کا انعام مقرر کیا گیا تھا۔

اُن کے ناول دی سیٹینک ورسز ’شیطانی آیات‘ کی وجہ سے مسلم دنیا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

اُس وقت ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے فتویٰ دیا تھا، جس کے تحت سلمان رشدی کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

اگرچہ ایرانی حکومت اس فتوے سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے لیکن بعد میں ایک نیم سرکاری ایرانی مذہبی تنظیم نے 2012 میں سلمان رشدی کے سر پر رکھے گئے انعام میں پانچ لاکھ ڈالر کا اضافہ کر دیا تھا۔

اب بھی پاکستان اور دیگر بہت سے ممالک میں سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی ہے اور تقریباً 10 برسوں تک اُنھیں روپوشی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور تھے

تجزیہ: علیم مقبول، مدیر برائے مذہب

اگرچہ ہم اس وقت نہیں جانتے کہ حالیہ حملہ کیوں کیا گیا، سلمان رشدی کو 30 سال قبل ’دی سیٹینک ورسز‘ کی اشاعت کے بعد سے دھمکیوں کا سامنا رہا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے اس ناول کا بنیادی مقصد ایک پناہ گزین کے تجربات کو بیان کرنا تھا لیکن کئی مسلمانوں کو اس ناول پر اعتراضات تھے۔

اس ناول پر سب سے پہلے انڈیا میں پابندی لگائی گئی، جہاں سلمان رشدی پیدا ہوئے تھے، اور اس کے بعد متعدد ممالک نے بھی ایران کے آیت اللہ خمینی کی جانب سے فتوی سامنے آنے سے قبل ایسا ہی کیا۔

ایرانی رہنما کے فتوے میں اس کتاب کی اشاعت میں ملوث ہر شخص کو قتل کرنے کا کہا گیا اور انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔ اب تک اس فتوی کو باضابطہ طور پر واپس نہیں لیا گیا۔

اس ناول پر شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد سلمان رشدی نے مسلمانوں سے معافی مانگی لیکن اگلے 10 سال تک کے لیے وہ منظر عام سے غائب ہو گئے۔

اگرچہ اب تک خود سلمان رشدی کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا تھا، اس ناول کی اشاعت سے جڑے دیگر لوگوں میں سے نارویجیئن پبلشر کو 90 کی دہائی میں گولی مار کر زخمی کیا گیا جبکہ جاپانی ترجمہ کرنے والے کو بھی قتل کیا گیا۔

برطانیہ کے وزیر اعظم اور فرانس کے صدر کی تنقید

سلمان رشدی پر ہونے والے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ‘سلمان رشدی ٹریند’ کر رہا ہے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹویٹ کیا: ‘انتہائی افسوس ہے کہ سر سلمان رشدی کو اس حق کا استعمال کرنے کے لیے چھرا گھونپ دیا گیا ہے جس کے دفاع سے ہمیں کبھی باز نہیں آنا چاہیے۔’

فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں نے لکھا کہ مسٹر رشدی ‘آزادی اور جہل پسندی کے خلاف جنگ کی مجسم علامت’ ہیں جو کہ ‘نفرت اور بربریت کی قوتوں کے بزدلانہ حملے کا شکار’ ہوئے۔

مصنف اور گرافک ناول کے تخلیق کار نیل گیمن نے کہا کہ وہ اپنے دوست اور ساتھی مصنف پر حملے سے ‘حیران اور پریشان’ ہیں۔

انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا ‘وہ ایک اچھے اور ایک شاندار آدمی ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔’

مسٹر رشدی کے پبلشرز پینگوئن رینڈم ہاؤس نے ایک بیان میں کہا: ‘ہم عوامی سطح پر ہونے والے اس پرتشدد حملے کی مذمت کرتے ہیں، اور ہمارے احساسات و جذبات اس مشکل وقت میں سلمان اور ان کے خاندان کے ساتھ ہیں۔’

مصنفین کی عالمی تنظیم پین (PEN) انٹرنیشنل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے حملے کی مذمت کی ہے۔

پین انٹرنیشنل کے صدر برہان سونمیز کے بیان کو ادارے کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘PEN انٹرنیشنل سلمان رشدی پر ہونے والے وحشیانہ حملے کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ سلمان PEN کمیونٹی کے ایک معزز اور مشہور مصنف اور پین انٹرنیشنل برادری کے پسندیدہ رکن ہیں۔’

سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کرنے والہ مشتبہ شخص کون ہے؟

برطانوی مصنف سلمان رشدی پر جمعہ کو ہونے والے حملے کے الزام میں گرفتار شخص کا نام ہادی مطر بتایا گیا ہے۔

مشتبہ شخص کی عمر 24 سال ہے اور وہ نیو جرسی کے شہر فیئر ویو کا رہائیشی ہے۔ نیو یارک سٹیٹ پولیس کے ترجمان یوجین جے سٹینزیوسکی نے حملے کے چند گھنٹے بعد ایک پریس کانفرنس میں یہ تفصیل شیئر کی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی کی گردن پر چاقو سے وار کیا گیا ہے۔ اور حملہ آور اب پولیس کی حراست میں ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے مقصد کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور حملے کی وجہ جاننے کے لیے ایف بی آئی سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

ملزم ہادی کے پاس رشدی کے پروگرام کا پاس تھا اور وہ تنہا ہی وہاں پہنچا تھا۔ پولیس نے مطر کے خلاف ابھی تک الزامات طے نہیں کیے ہیں۔

مشتبہ ہادی مطر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ چھلانگ لگا کر سٹیج پر پہنچا اور سلمان رشدی کی گردن پر کم از کم ایک بار اور پیٹ میں ایک بار چاقو مارا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں