طالبان نے خواتین کے حقوق کو شدید پامال کیا، یورپی یونین

برسلز (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال مکمل ہونے سے قبل یورپی یونین کے ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان نے خواتین اور بچیوں کے حقوق کی بری طرح خلاف ورزی کی ہے۔

یورپی یونین کے امور خارجہ کی ترجمان نبیلہ ماسرالی نے برسلز میں طالبان کے حوالے سے جاری بیان میں کہا، ”طالبان ایک کثیرالقومی سیاسی سسٹم بنانے میں ناکام رہے ہیں اور یوں وہ افغان عوام کی امنگوں کو پورا نہیں کر پائے۔‘‘

پیر 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ انسانی حقوق کے ماہرین اور عالمی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس ایک سال کے دوران طالبان نے خواتین کے حقوق پر شدید قدغنیں عائد کی ہیں۔ اب بھی افغانستان میں سیکنڈری اسکول، طالبات کے لیے بند ہیں۔ میڈیا پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہاں تک کے ٹی وی نیوز کاسٹرز اور ٹی چینلز پر آنے والی خواتین کو حکم ہے کہ وہ اپنا چہرہ چھپائیں۔

سماجی اور اقتصادی مسائل

خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی اہم مسائل ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جنگ زدہ ملک شدید اقتصادی مشکلات کا شکار بھی ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد امریکہ نے افغان حکومت کے قریب نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا۔ طالبان کئی مرتبہ اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر طالبان پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی امداد بھی بہت محدود ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس سال لاکھوں افغان بچوں کے بھوک کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔ خشک سالی اور کچھ صوبوں میں زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ افغان آبادی کا زیادہ تر حصہ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا

اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اندرونی طور پر بھی طالبان حکومت دباؤ کا شکار ہے۔ خواتین طالبان کی سختیوں کے باوجود اپنے تعلیم، ملازمت اور آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کے حقوق کی تلفی کے خلاف سٹرکوں پر نکلتی ہیں۔ ہفتہ 13 اگست کو بھی کابل میں خواتین نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا لیکن طالبان گارڈز کی جانب سے اس مظاہرے کو طاقت کے زور سے روک دیا گیا۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے اقلیتوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ طالبان اقتدار میں شیعہ اور ہزارہ افراد کے اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے افغان طالبان کو کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے افغان عوام کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

طالبان دہشتگردی کے خاتمے کو یقینی بنائیں

یورپی یونین کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”افغانستان کسی صورت دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے اور نہ ہی افغان سرزمین عالمی سکیورٹی کے لیے خطرہ بنے۔‘‘ کچھ روز قبل ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ کابل میں اس لیڈر کی موجودگی نے بھی طالبان کے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے شبہات کو مزید تقویت دی تھی۔

طالبان نے 15 اگست 2021ء کو کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ گزشتہ سال افغانستان میں نیٹو مشن کے بیس سال مکمل ہو گئے تھے۔ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں امریکہ اور نیٹو مشن نے جلد بازی میں افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کیا۔ اس انخلاء کے بعد سے طالبان افغانستان پر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں